اے این پی پر ریڈیو سے کفر کے فتوے
اصل میں یہ جو سامنے لڑنے والے لوگ تھے یہ تو کٹھ پتھلیاں تھیں۔ فضل ربی راہی اور فضل خالق نے اپنی کتابوں میں بہترین انداز میں اس وقت کی صورت حال کو بیان کیا ہے کہ کس طرح جنگی اقتصاد کے لئے گراؤنڈ تیار کیا جا رہا تھا۔ ریڈیائی آواز میں اے این پی کی پارٹی، قیادت اور کارکنان کو کبھی شاہ دوران، کبھی مسلم خان اور کبھی ریڈیو ملا فضل اللہ دھمکیاں دیتا تھا اور ساتھ اس ترقی پسند سوچ رکھنے والی جماعت پر کفر کے فتوے بھی لگائے جاتے تھے۔ عجیب ڈر کا سماں ہوتا تھا۔ شام کے بعد دکانیں جلدی بند ہو جاتیں۔ پلوشہ سنیما کے ساتھ سڑک کنارے ہوٹل میں ایک شام کھانا کھا رہے تھے تو ہوٹل ملازم نے کہا جلدی کریں۔ اس ہوٹل کے مالک کے کاؤنٹر پر بھی ایک چھوٹا سائز کا بلیک ریڈیو پڑا تھا جو مسلسل اس نفرت اور دھمکی آمیز تقریر کو غور سے سن رہا تھا۔
’ثواب اور گناہ کے لئے ریڈیو نہیں سنتا، اس لئے سنتا ہوں کہ میرے یا خاندان لئے کوئی دھمکی نہ ہو‘
میں نے آواز دی یہ بندہ اسلامی تعلیمات نہیں دے رہا۔ مہربانی کر کے اس آواز کو بند کر دو۔ انہوں نے جواب دیا کہ ثواب اور گناہ کے لئے تھوڑی سنتا ہوں، میں تو اس لئے سنتا ہوں کہ کہیں آج میرے یا خاندان کے کسی دوسرے فرد کے لئے بھتہ یا دھمکی کی کوئی خبر نہ ہو۔ اس سے پہلے ریڈیو کا مؤثر استعمال اس سے زیادہ میں نے کہیں نہیں سنا تھا۔ جو لوگ محبت کی وجہ سے نہیں بلکہ ڈر کی وجہ سے آپ کو سنتے ہوں۔ شاید اس سے پہلے جرمنی میں نازی دور میں ہوا ہو کیوںکہ نازیوں نے بھی جنگ سے پہلے اور بعد میں پراپیگنڈے کے لئے ذرائع ابلاغ کا بہترین استعال کیا تھا۔ سوات کے علاوہ لشکر اسلام کے چیف منگل باغ نے خیبر ضلع میں بذریعہ اپنے غیر قانونی ریڈیو کے علاقہ میں خوف و ہراس پھیلایا ہوا تھا اور یہ شر پسند لوگوں کو باقاعدگی کے ساتھ ریڈیو کے ذریعے دھمکی اس لئے بھی دیتے تھے کہ دھاک بیٹھی رہے اور خون کا دھندہ چلتا رہے۔
پشتونوں کو ان ریڈیو ملاؤں کے رحم پر کس نے چھوڑا؟
سوالات اٹھیں گے۔ تاریخ کو اس دھرتی ہی کے بیٹے اور بیٹیاں لکھیں گے۔ ہر ذی شعور کا تجسس بڑھ رہا ہے کہ اس ریاست کے ہوتے ہوئے بھی اس کی اولاد کو کس نے کیوں اور کس کے کہنے پر چیرا پھاڑا اور ان کی تذلیل کی گئی۔ پشتونوں کے ضمیروں کو مارا، لاکھوں کی تعداد میں پشتونوں کو ان ریڈیو ملاؤں کے رحم پر کس نے چھوڑا جس کی وجہ سے یہ لوگ اپنے ہی دیس میں پرائے ہو گئے اور ذہنوں پر ایک مظالم کی انمٹ نشانیاں لے کر پھرتے ہیں؟ وہی وحشت پھیلانے والے یا تو ملک سے نکل گئے اور یا جیلوں سے فرار ہو گئے ہیں۔ خدا کو ہی معلوم ہے کہ کس طرح عظیم فرار کی داستانیں رقم ہوئیں۔ اس طرح صرف ہالی ووڈ فلموں میں کسی زمانے میں ہوتا تھا۔ موویز بنانے والے بھی اب جھوٹ کو سچ کے قریب لا کر فلمبند کرتے ہیں۔
حکومت کا فضل اللہ کے پراپیگنڈا کا مقابلہ کرنے کے انوکھا طریقہ
ان ریڈیوز کو کاؤنٹر کرنے کے لئے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے بھی ایف ایم 96 کو اسلام آباد سے صرف پشتو زبان میں لانچ کیا۔ اس ریڈیو کا کام مُلا فضل اللہ اور منگل باغ کے ریڈیائی پراپیگنڈے کا مقابلہ کرنا تھا۔ ان ایف ایم ریڈیوز سے ایک نہ ختم ہونے والی موسیقی کا سلسلہ دن رات چلتا رہا۔ معلوم نہیں کہ کس طرح اور کب دانشمندانہ طریقے اس ریڈیو سے کاؤنٹر پراپیگنڈا کیا تھا کیوںکہ اس کو چلانے والے بھی کوئی ماس کمیونکیشن کے ماہرین، ماہر نفسیات یا پرتشدد بیانیے کے ماہرین نہیں تھے۔ اس طرح خیبر پختونخوا کے دوسرے اضلاع میں بھی خاموش معاہدے کے تحت ریڈیو چلانے کے لائسنس شہریوں کو مل گئے۔ افغان جنگ سے لے کر دہشت گردی کے خلاف جنگ سے لے کر حالیہ دنوں تک خبروں کے لئے پشتون بیلٹ کے لوگ ریڈیو بی بی سی اور وائس آف امریکہ پر اعتماد کرتے ہیں۔ ان دنوں میں اس خطے کو اچھی طرح جاننے والے رچرڈ ہالبروک نے مشال ریڈیو کے نام سے ان ریڈیائی آوازوں میں اضافہ کیا۔ مشال ریڈیو نے بھی وی او اے اور بی بی سی کی طرح پراگ اور پاکستان میں بہترین ٹیم کی سروسز لی۔ اس سے پہلے بھی برطانیہ نے مغربی سرحدوں پر جرمن ریڈیو کا مقابلہ کرنے کے لئے پشاور میں ریڈیو کا آغاز کیا تھا۔
ریڈیو پاکستان ملا ریڈیو کا مقابلہ کیوں نہ کر سکا؟
ان تمام کشیدہ اور جنگ زدہ حالات کے بعد بہت ہی اہم سوال تو یہی بنتا ہے کہ ریڈیو پاکستان اس پوری جنگ میں کہاں کھڑا تھا؟ ہمارا قومی ادارہ جس کو چلانے کے لئے ہم باقاعدگی سے ٹیکس بھی دیتے ہیں، کیوں شرپسندوں کے پراپیگنڈے کا مقابلہ نہ کر سکا؟ ہمیں کیوں عسکری اداروں کی مدد کی ضرورت آن پڑی؟
بی بی سی ریڈیو نے آئرش علیحدگی تحریک سے مقابلہ کیا، ریڈیو پاکستان کیا کرتا رہا؟
ہمیں ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کی خبروں پر اعتماد اس لئے نہیں ہے کہ ہر حکومت ان داروں کو اپنی مرضی اور جماعتوں یا اداروں کی مرضی کے مطابق چلانا چاہتی ہے۔ بی بی سی چونکہ برطانیہ کی عوام کے ٹیکسوں سے چلنے والا ادارہ ہے مگر اس کی ایک بہت ہی فعال ٹیم نادرن آئر لینڈ میں بھی موجود ہے۔ کمال ہے کہ پالیسی میکرز پر جب آئرش علیحدگی پسند، تاج برطانیہ سے بندوق کے زور پر آزادی چاہتے تھے تو بی بی سی نے اس دوران جنگ اور دھمکیوں کے باوجود ریڈیائی آواز کو اسی طرح جاری رہنے دیا اور مقامی لوگوں کا بھی ادارے کی غیرجانبدار رپورٹنگ پر کوئی زیادہ اعتراض سامنے نہ آیا۔
لوگ وائس آف امریکہ اس لئے سنتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی آپشن نہیں
ہم ریڈیو کا عالمی دن صرف مناتے ہیں، اپنی پالیسیوں پر نظرثانی نہیں کرتے۔ اداروں کو آزاد اور خود مختار رہنا چاہیے تاکہ لوگوں کا اعتماد بحال ہو سکے اور عوام کو وائس آف امریکہ جیسے ریڈیوز کی طرف نہ دیکھنا پڑے۔