علی ذیشان کی اس مہم کو اقوام متحدہ کے عورتوں کےلیے کام کرنے والے ادارے "یو این وومن" کی طرف سے کافی پزیرائی ملی ۔ مگر یہاں سوشل میڈیا پر اس مہم کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔ کسی نے اس کو علی ذیشان کی طرف سے ایک "پبلسٹی سٹنٹ" قرار دیا ۔ تو کسی نے کہا کہ لاکھوں روپے ملبوسات بنانے والا ڈیزائنر اگر جہیز کے خلاف ترغیب دے رہا ہے تو ماسوائے منافقت کے یہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ یہی نہیں اس مہم کے مقابلے میں ایک متبادل بیانیہ بھی دیکھنے میں آیا کہ جہیز کے معاملے میں سارا قصور مردوں کا نہیں ہے بلکہ عورتیں بھی اس میں شامل ہوتی ہیں ۔ پھر یہ کہا گیا کہ جیسے لڑکی کے گھر والوں سے جہیز کا مطالبہ کیا جاتا ہے ویسے ہی لڑکی کے گھر والوں کی طرف سے بھی لڑکے کے حوالے سے کچھ معیارات رکھے جاتے ہیں جن پر نا صرف لڑکے کو پورا اترنا ہوتا ہے ،بلکہ شادی کے بعد وہ بیچارہ لڑکی کو خوش کرنے کےلئے اپنا دن رات ایک کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جہیز کے لینے اور دینے میں خاندان کے مرد اور عورت دونوں ہی شامل ہوتے ہیں ۔ لیکن دیکھنا یہ چاہئیے کہ جہیز کا مسئلہ مرد کی بجائے عورت سے زیادہ جڑا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے سب سے زیادہ تنگ ایک لڑکی کو ہی ہونا پڑتا ہے کہ اگر وہ جہیز نہ لیکر جائے تو اسے اپنے سسرال میں پوری زندگی طعنے سننے کو ملتے ہیں ۔ اسی لیے وہ غریب لوگ ، جہیز دینا جن کے بس کی بات نہیں ہوتی وہ بھی اپنی پوری کوشش کرتے ہیں کہ چاہے ادھار لیکر یا کسی سے مدد سے لیکر اپنی بیٹی کو جہیز کےلئے سامان دیا جائے مگر دیا ضرور جائے۔ ایک تنظیم کے ساتھ وابستہ ہونے کی وجہ سے مجھے ایسے کئی کیسز کو دیکھنے کا موقع ملا ۔تو اس حوالے سے میری ناقص رائے یہ ہے کہ اگر لڑکا یہ فیصلہ کرلے تو اس کےلئے اپنے اور لڑکی کے گھر والوں کو جہیز سے انکار پر منانا کوئی مشکل کام نہیں ہے بس اس کےلئے نیک نیتی اور تھوڑی سی ہمت درکار ہے۔
مگر اس معاملے پر بھی مردوں کے حق میں ایسی توجیہات پیش کرکے ایسا رویہ دیکھنے میں آرہا ہے جیسا ہمارے سماج میں خواتین کے دیگر مسائل کے حوالے سے بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثلآ یہاں جب کسی عورت کے ساتھ ریپ ہوجاتا ہے تو اس کی عجیب و غریب تاویلیں دی جاتی ہیں کہ وہ اس وقت گھر سے باہر کیوں نکلی تھی ؟ یا اس نے ایسا لباس پہنا ہوا تھا تو اس لیے اس کے ساتھ یہ ہونا ہی تھا ۔ مگر جب ان کو گھر میں رہنے والی بچیوں سے ریپ کا پوچھا جاتا ہے تو کوئی جواب نہیں آتا ۔ اسی طرح عورتوں پر گھریلو تشدد اور میریٹل ریپ کو تو سرے ہی مسائل ہی نہیں گردانا جاتا ۔ غیرت کے نام پر قتل ہونے والی یا تیزاب سے چہرے جھلس جانے والی خواتین کے بارے میں جب کوئی ڈاکومنٹری بن جائے اور اسے آسکر جیسا عالمی ایوارڈ بھی مل جائے ،ہم اس کو نا صرف ملک کی بدنامی سے تعبیر کردیتے ہیں بلکہ اس کو بنانے والے پر بھی لعن طعن کرتے ہیں۔
مگر جس مرد کی طرف سے یہ سب کچھ کیا جاتا ہے اس کے بارے میں ایک لفظ تک بولنا گوارا نہیں کرتے ۔ اگر کوئی خاتون جنسی ہراسانی کی بات کر دے تو اس کی بات پر یقین کرنے کی بجائے یہ کہا جاتا کہ اس کی بھی تو مرضی شامل ہو گی ۔ یا پھر یہ کہ یہ تو صرف عورت کارڈ کھیل رہی ہے ۔ جیسے کہ اس "نمائش"مہم کو بھی عورت کارڈ سے تعبیر کر دیا گیا ۔ اس سے مجھے پچھلے برس کا " عورت مارچ" بھی یاد آرہا ہے ۔ جس میں جب عورتوں کے انہی مسائل اور حقوق کی بات کرنے کےلیے پلے کارڈز پر کچھ نعرے درج کیے گیے تو اس سماج کی مردانگی کو بہت ٹھیس لگی ۔ اور ان نعروں کے مقابلے میں مردوں کے حق میں نعرے سامنے آگئے ۔ نا صرف یہ بلکہ عورت مارچ پر بھی تنقید کی گئی کہ اس کا انعقاد کرنے والے کسی خاص ایجنڈے کےلئے پیسے لیکر یہ سب کرتے ہیں۔
پھر یہ بھی کہا گیا کہ وہاں تو عورت کے حقیقی مسائل کو اجاگر ہی نہیں کیا جاتا ۔ کئی لوگوں کو تو اس کے انعقاد پر ہی اعتراض تھا۔ جیسا کہ میرے ایک دوست کو بھی یہ سب تماشا ہی لگا تھا ۔ اس کے مطابق عورتوں کے مسائل کے حوالے سے بس قانون سازی کرنے کی ہی ضرورت تھی۔ لیکن جب میں نے اس سے کہا کہ اس حوالے سے بہت سے قوانین پہلے سے موجود ہیں ۔مسئلہ ان پر عمل درآمد نہ ہونے کا ہے اور ان پر عملدرآمد اس لیے نہیں ہوپاتا کہ بہت سی عورتوں کو ان قوانین کا سرے سے علم ہی نہیں ہوتا ہے۔ تو اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے کےلئے اگر خواتین اپنے عالمی دن کے موقع پر باہر آ بھی جاتی ہیں تو اس سے کون سی قیامت برپا ہوجاتی ہے ؟ اس نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ "اگر عورتوں کے مسائل ہیں تو پھر مردوں کو بھی تو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے ساتھ بھی کچھ زیادتیاں ہوتی ہیں۔"
میں نے اس سے جب مردوں کو درپیش مشکلات کے بارے میں پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ "دیکھیں جی مرد جب بینک میں جاتے ہیں تو اتنی دیر لمبی لائن میں کھڑے رہتے ہیں جبکہ خواتین مزے سے آکر الگ لائن میں لگ کر جھٹ سے اپنا کام نکلوا کر چلتی بنتی ہیں"۔ اس پر میں نے کہا یار قسم سے عورتوں کو درپیش مسائل کے مقابلے میں یہ تو بہت سنگین معاملہ ہے لہذا ہم اس حوالے سے بھی مارچ ضرور کریں گے ۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مردوں کےاس متبادل بیانیے کی آخر وجہ کیا ہے ؟ تو اس سوال کا بہت سادہ سا جواب یہ ہے کہ چونکہ عورتوں کے مسائل کی وجہ مجموعی طور پر مرد ہی ہوتے ہیں تو اس لیے ان مسائل کا جب بھی تذکرہ ہوتا ہے تو اس سے مرد کی مردانگی کو ٹھیس پہنچتی ہے جس کا ردعمل پھر اس طرح کی مختلف تاویلات کی صورت میں نظر آتا ہے۔
یہ ساری صورتحال تب ہی بہتر ہوسکتی جب اس سماج کے مرد اس امر کو سمجھیں گے کہ یہاں جو عورتوں کے مسائل ہیں دراصل ان کی وجہ زیادہ تر وہ ہی ہیں اس لیے ان کو ہی اس حوالے سے اپنا مؤثر کردار بھی ادا کرنا ہے ۔ اس کا عملی مظاہرہ ہمیں بی بی سی اردو کی حال ہی میں شائع ہونے والی رپورٹ میں ملتا ہے جس کے مطابق دنیا کے کئی ملکوں میں جب کچھ مردوں نے اس سوچ کو اپنایا تو وہاں کیسے عورتوں کے مسائل کے حوالے سے بہتری آئی ۔ مگر پدر سری سماج ہونے کی وجہ سے ہمارے ہاں چونکہ یہ سب مسائل اتنے گھمبیر ہیں تو اس لیے یہاں مردوں کے ساتھ ساتھ کئی عورتوں کی سوچ بھی ایسی بن گئی ہے کہ ان کو بھی سرے سے یہ سب مسائل محسوس ہی نہیں ہوتے ہیں۔
لہٰذا یہاں پر تو مردوں اور عورتوں دونوں کی ہی سوچ کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے ۔ اس کا آغاز ایسے کیا جاسکتا کہ جب بھی عورتوں کے مسائل کے حوالے سے کسی بھی فورم پر کسی کی طرف سے بھی بات کی جائے تو بجائے اس کی نیت پر شک کرنے اور مختلف قسم کی تاویلات پیش کرنے کے اس کو سراہا جانا چاہیے۔ چاہے وہ جہیز جیسے معاملے پر " نمائش" جیسی مہم ہو، غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے بننے والی کوئی ڈاکومنٹری ہو یا پھر ان سب مسائل کو اجاگر کرنے کےلئے " عورت مارچ "کا انعقاد ہو ۔ تب ہی جا کے آہستہ آہستہ صورتحال بہتری کی طرف جا سکتی ہے ۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ہمارے سماج میں مردوں کے بھی مسائل ہیں تو بلاشبہ ایسا ہے مگر ان کی نوعیت عورتوں کو در پیش مسائل جیسی تو بالکل بھی نہیں ہے ۔ لہذا مجموعی طور پر سماج میں جو طبقہ زیادہ پسا ہوا ہوتا ہے ۔ اس کے حوالے سے بات بھی زیادہ کی جانی چاہیے۔