مگر سوال تو یہ بھی ہے کہ آخر بے جان چیزوں میں انسانوں کا چہرہ نظر آتا ہی کیوں ہے؟ کیا یہ نفسیاتی رجحان ہے؟ ویسے سوال یہ بھی برحق ہے کہ زیادہ تر مردوں کا چہرہ ہی کیوں؟ عورتوں کا کیوں نہیں؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ بے جان اشیا میں انسانی چہرہ دیکھ لینے کی اس کیفیت کو علمِ نفسیات یعنی میں فیس پیریڈولیا کہتے ہیں۔ لیکن ایک ریسرچ میں پتا چلا ہے کہ زیادہ تر لوگوں کو چیزوں میں مردوں کا ہی چہرہ نظر آتا ہے۔
آپ یہ سن کر حیران ہونگے کہ اس کی وجہ صنفی تعصب ہے۔ یہ ریسرچ امریکی ماہرین نے 3 ہزار 800 افراد پر کی کرکے اس سے اپنے بتائج اخذ کئے ہیں۔ اس تحقیق میں شرکت کرنے والے افراد کو مختلف بے جان چیزوں کی تصویریں دکھا کر ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں ان تصویروں میں انسانی چہرہ دِکھتا ہے یا نہیں؟
ان میں سے کچھ تصویریں تو بالکل عام سی تھیں اور ان میں کسی بھی قسم کے انسانی اعضا نہیں تھے جبکہ کچھ تصویریں ایسی بھی تھیں جن میں کچھ مبہم سا انسانی چہرہ دکھائی دیتا تھا۔
یہ تصویریں ڈبل روٹی کے سلائسز، باتھ روم فٹنگز، پیاز کے چھلکوں اور پنیر وغیرہ کی تھیں۔ ان تصویروں کو دیکھنے والے تقریباً تمام لوگوں ہی نے یہ کہا کہ انہیں ان میں کسی نوجوان مرد کی سی شکل نظر آرہی ہے۔ جن لوگوں کو ان میں لڑکی یا خاتون کی شکل نظر آئی، ان کی تعداد بہت ہی کم تھی۔
پھر ایکسپرٹس نے اس کی وجہ بھی جان لی اور وہ یہ کہ ہم انسانوں کے دماغ میں یہ چیز پائی جاتی ہے کہ وہ کسی ایسی مبہم تصویر جس میں بہت زیادہ نہ ہوں کو جھٹ سے کسی مرد کا چہرہ کہہ دیتا ہے۔
ویسے اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے دماغ کے لئے مردانہ چہرہ پہچاننا زیادہ آسان ہے۔ وہ یہ کام بہت تیزی سے کر لیتا ہے، یعنی بغیر زیادہ وقت لگائے۔ اب اسے اُلٹا کر لیں۔ کسی بھی بے جان چیز میں کسی عورت کا چہرہ ڈھونڈ نکالنے یا محسوس کرنے کے لئے ہمارے دماغ کو بہت ساریتفصیلات چاہیے ہوتی ہیں۔
اس سے یہ رزلٹ بھی نکل سکتا ہے کہ عورتوں کا چہرہ زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے اور اسے پہچاننے کے لیے ہمارے دماغ کو خوب محنت اور ذہن لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اسی لیے اگر کسی چیز میں کوئی انسانی چہرے جیسے شے نظر آرہی ہو، اس کی کم کم اور غیر واضھ ہوں تو دماغ اسے فوراً کہہ دیتا ہے کہ یہ تو کسی مرد کی شکل ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ان تصویروں میں کسی بوڑھے مرد کی تصویر نہیں بلکہ جوان شخص کی تصویر دکھائی دیتی ہے۔