جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے کے مطابق صدر رجب طیب ایردوآن کے بارے میں توہین آمیز جملے اور فقرے ادا کرنے والوں کے خلاف تفتیش کے ساتھ ساتھ ان کی گرفتاریاں بھی شروع کر دی گئی ہیں۔
دارالحکومت انقرہ اور سب سے بڑے شہر استنبول کے دفاترِ استغاثہ کے مطابق اس وقت کم از کم چھتیس تفتیشی کیس جاری ہیں اور اب تک چار افراد کو حراست میں بھی لیا جا چکا ہے۔
اس کے علاوہ چار دیگر افراد کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔ انہی میں سے ایک سوئمنگ چیمپیئن دریا بُوئیکن جُو بھی ہیں، جو اب عدالتی کارروائی کے منتظر ہیں۔ ان کی رکنیت کو ترک سوئمنگ فیڈریشن نے مستقل طور پر معطل کر رکھا ہے۔
ترکی میں صدر کے بارے میں توہین آمیز کلمات ادا کرنا ایک فوجداری جرم ہے اور یہ قانون ایردوآن کے صدر بننے سے بھی کئی سال قبل سے نافذ ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان سے پہلے ملکی صدور نے اس قانون کا بہت زیادہ استعمال نہیں کیا تھا۔ ان سے قبل تین صدور عبد اللہ گُل، احمد نجد سیزر اور سلیمان ڈیمرل کے ادوار میں درج کیے جانے والے ایسے مقدمات کی تعداد محض ایک ہزار ایک سو انہتر تھی۔
اس وقت ترکی میں یہ سوال بھی زیرِ بحث ہے کہ ملکی صدر رجب طیب ایردوآن کے بارے میں کوئی بات کرنا بھی ان کی تذلیل تصور کی جا سکتی ہے۔ اس مناسبت سے تیراکی کے سابق ترک چیمپیئن دریا بُوئیکن جُو کو بھی تفتیش کا سامنا ہے کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ صدر کو کووڈ انیس کا مرض لاحق ہو گیا تھا اور انہیں دعاؤں کی ضرورت تھی۔
اس ترک ایتھلیٹ کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں فکر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ دعائیں کی جا رہی ہیں۔ دریا بُوئیکن جُو نے یہ بھی کہا تھا کہ انہوں نے اپنے علاقے کے لوگوں میں بانٹنے کے لیے بیس برتن حلوے کے تیار کرائے ہیں۔
ایسا جملے ادا کرنے پر ترکی کے ایک اہم ایتھلیٹ کو فوجداری تفتیش کا سامنا ہے اور اگر یہ ثابت ہو گیا کہ انہوں نے ایردوآن کی توہین کی ہے، تو انہیں چار برس تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
ایسے حکومتی اقدامات کے تناظر میں ترک عوام میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ آیا ایسے عام بول چال کے جملے آزادئ اظہار کے منافی ہیں اور یہ ملکی صدر کی بے عزتی کا سبب ہیں۔ اب ان معاملات کا فیصلہ ترک عدالتوں کو کرنا ہے۔
ترک وزارتِ انصاف کے مطابق صدر ایردوآن کی توہین کرنے کے اکتیس ہزار تفتیشی کیسز کا عمل سن 2020 میں شروع کیا گیا تھا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ توہین آمیز جملوں کی ادائیگی پر تفتیشی عمل سن 2014 میں شروع کیا گیا۔ یہ وہی سال تھا جب رجب طیب ایردوآن نے منصبِ صدارت سنبھالا تھا۔
قریب آٹھ برسوں میں ایردوآن کی توہین کے واقعات، جن کی تفتیش شروع کی گئی، ان کی مجموعی تعداد ایک لاکھ ساٹھ ہزار بنتی ہے۔ انتالیس ہزار افراد کو جلد ہی عدالتوں کے کٹہروں میں کھڑا کر دیا جائے گا۔
استنبول کی ایک یونیورسٹی کے قانون کے پروفیسر یمان اکدینیز کا کہنا ہے کہ اب تک تیرہ ہزار مقدمات میں فیصلے سنائے جا چکے ہیں۔ ان کے مطابق تین ہزار چھ سو افراد کو سزائیں سنائی گئیں اور ساڑھے پانچ ہزار کو عدالتوں نے بری کر دیا۔
پروفیسر یمان اکدینیز کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان مقدمات میں عدالتوں کی جانب سے ایسے افراد کو بھی سزائیں سنائی گئیں، جن کی عمریں ان کے خلاف فیصلے سنائے جانے کے وقت اٹھارہ برس سے بھی کم تھیں۔ ایسے سزا یافتہ افراد کی تعداد سو سے زائد بنتی ہے۔