گذشتہ سال کے اعداد و شمار کے مطابق مندرجہ بالا اداروں نے پاکستان میں علمی افلاس کی شرح کو 75% تک بتا یا ہے۔ پاکستان میں بھی اثر (ASER) نام کی تنظیم سالہا سال سے جو سروے کرتی ہے اس کے نتائج بھی علمی افلاس کےاس بحران کی موجودگی کی تصدیق کرتے ہیں۔ کووڈ کی عالمی وبا کی صورتحال نے یقیناً اسے مزید خراب کیا ہے۔
دنیا میں کم اور اوسط آمدن کے ممالک میں یہ شرح 53% تک رہی۔ پڑوسی ملک بھارت میں بھی لگ بھگ یہی شرح تھی۔ یہ امر بھی ہمیں اپنے تعلیمی نظام کی کارکردگی کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ یونیسف اور ملکی اداروں کی جانب سے فراہم کردہ ڈیٹا سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ ملک میں سوا دو کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ جن میں سے آدھے بچے گذشتہ سالوں میں پنجاب کے زرخیز اور نسبتاً خوشحال صوبے کے بچے ہیں۔ پھر یوں ہوا کہ محکمہ تعلیم نے اپنی کارکردگی کو بہتر دکھانے کے لئے سکولوں میں داخلوں کی بھرمار کردی۔ یہ بھی نہ دیکھا کہ سکولوں میں گنجائش کتنی ہے۔ آج کل محکمہ سکول ایجوکیشن سینہ تان کے یہ اعلان کرتا ہے کہ انہوں نے ایک کروڑ بچوں کو سکول کا راستہ دکھا دیا ہے۔ وسیلہ تعلیم، زیور تعلیم اور کئی طرح کے تعلیمی وظائف اور تعلیمی پیکجز کے ذریعے سے طلبہ کے سکول جانے کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے لیکن سکول سے بھاگ جانے والے بچوں کی تعداد میں پھر بھی خاطر خواہ کمی نہیں آ رہی۔
پنجاب ٹیچرز یونین کا کہنا ہے کہ سکول میں داخل ہونے والے 50% بچے سکول سے بھاگ کر مزدوری وغیرہ کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔ پنجاب کے شہری علاقوں میں بھی سکول سے بھاگ جانے والے بچوں کی شرح 10% سے بڑھ کر 25% ہو گئی ہے۔ پنجاب بھر میں 54,000 کے قریب سرکاری سکول ہیں جن کی تعداد میں پچھلے تین سالوں میں مزید اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا تو یقیناً ایک کروڑ نئے داخل ہونے والے بچوں کا مطلب یہی ہے کہ ان کا بوجھ پہلے سے موجود سہولیات پر ہی آئے گا۔ مندرجہ بالا اشاریوں سے واضح ہوتا ہے کہ سرکار تعلیم کے میدان میں کسی اچھی کارکردگی اور شہرت حاصل کرنے کا ارادہ تو رکھتی ہے لیکن اس پر سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ صوبائی بجٹ میں تعلیم کی مد میں کوئی اضافہ ہوا بھی تو یہ اضافہ آبادی کی شرح نمو اور افراط زر کے حساب سے ناکافی تھا۔ لہٰذا یہ ہیں وہ محرکات جو ہمارے علمی افلاس کے پیچھے صف بہ صف کھڑے ہیں اور ان دیواروں کو گرانے کے لئے کوئی جتن نہیں کیا جا رہا۔ البتہ دوسری طرف یہ رحجان غالب رہا کہ نظام تعلیم میں جس حکومتی ادارے کا بس چلتا تھا اُس نے مذہبی مواد کا اضافہ کر کے خود نیک نامی سمیٹنے کی کوشش کی۔ آئیے گذشتہ دو سال میں اس ضمن میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیتے ہیں جو بلا شبہ پنجاب میں تعلیم تک رسائی اور معیار کے حوالے سے باعثِ تشویش ہیں:
1۔ پنجاب اسمبلی نے جون 2020 میں پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ ایکٹ 2015 میں ترمیم کر کے سیکشن 10میں 2(b) کااضافہ کیا جس کے تحت متحدہ علما بورڈ کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ پنجاب میں درسی کتب کی اشاعت سے قبل تمام نصابی کتابوں کا جائزہ لیں اور منظوری دیں۔ اس اقدام سے مختلف پبلشرز کی طرف سے چھاپی گئی نصابی کتب میں آئزک نیوٹن اور ملالہ یوسفزئی کی تصویروں کے حوالے سے تنازعات سامنے آئے۔ حتیٰ کہ یہ مطالبہ سامنے آنا شروع ہو گیا کہ علما بورڈ صرف اسلامیات کے مضمون کا جائزہ لینے تک محدود رہے۔
واضح رہے کہ اور کسی صوبے نے نصابی کتب کا جائزہ لینے کے لئے علما بورڈ تشکیل دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ مزید برآں یہ وفاقی حکومت کی قومی کریکولم پالیسی پر ملک بھر میں اتفاق رائے کے دعوؤں کی بھی نفی کرتا ہے۔ جون میں غیر مسلم طلبہ کو کوئی متبادل فراہم کیے بغیر اعلیٰ تعلیم کے لئے قرآن پاک کا مطالعہ لازمی قرار دے دیا۔
2۔ دو سال قبل حکومت ایک قانون اور یکساں قومی نصاب کے تحت صوبے میں یہ کورس پہلے سے ہی مڈل اور سیکنڈری تعلیم کا حصہ بنا چکی ہے۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ کیا یہ ضروری ہے کہ سکول اور یونیورسٹی دونوں سطح کی تعلیم کے دوران قران پاک کی تعلیم لازمی قرار دی جائے؟ کیا اس سے پہلے دینی تعلیم جو گذشتہ نصف صدی سے نصاب کا حصہ ہے اس کے نتائج کا جائزہ لیا گیا ہے؟
3۔ نومبر 2021 کو لاہور ہائی کورٹ کے جاری کردہ ایک فیصلے میں (التمش سعید بنام حکومت پنجاب) ڈسٹرکٹ ججوں کو پنجاب بھر کے سکولوں میں قرآن پاک کی تعلیم کے انتظامات کا جائزہ لینے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ علاوہ ازیں عدالتی حکام نے چند سکولوں کو ناکافی انتظامات کی وجہ سے بند کرنے کا حکم دیا، جو بچوں کے تعلیم کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔ اس فیصلے سے انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات کی علیحدگی کی صریحاً نفی ہوتی ہے لیکن حکومت پنجاب فیصلے پر نظرثانی کے لئے عدالت سے رجوع کرنےمیں ناکام رہی۔
4۔ محکمہ تعلیم نے مخلوط تعلیم پر پابندی لگانے کی کوشش کی۔ سرکلر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (چکوال نمبر 1721) نے جاری کیا، جو بعد ازاں ہونے والے اعتراضات پرواپس لے لیا۔
5۔ دسمبر 2021 میں سکول ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے تمام سرکاری اور نجی سکولوں میں صبح کی اسمبلی کے دوران قومی ترانے سے پہلے قرآن پاک کی تلاوت کے ساتھ درود شریف پڑھنا لازمی قرار دے دیا۔
دسمبر 2021 کے دوران توہین اہانت دین کے قوانین کے تحت رپورٹ ہونے والے تقریباً 70 فیصد کیسز پنجاب میں ہوئے، جہاں جھوٹے الزامات واقعات میں پچاس طلبہ اور اساتذہ متاثرین میں شامل تھے۔ چار اساتذہ اور ایک طالبِ علم کو قتل کر دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اقلیتی عقائد سے تعلق رکھنے والا طالب علم جو عربی الفاظ کا صحیح تلفظ نہیں کر سکتا، یا کسی حدیث کا صحیح حوالہ نہیں دے سکتا، اسے توہین مذہب کے الزام کا سامنا کرنا پڑ ا تو فیصلہ ساز کیا کریں گے؟ اب تک اہانتِ دین کے الزام کی زد میں آنے والے لوگوں کا تعلق مذہب اسلام سے ہے۔ تعلیمی پالیسی کے ناخدا کس کس کو دلاسہ، کس کس کو اپنے عمل کا حساب دیں گے؟
6۔ 2020-2021 کے دوران پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ اسلامیات کے متبادل کے طور پر اخلاقیات کے مضمون کی بجائے پانچ اقلیتی مذاہب کی تعلیم کے بارے میں قومی نصاب کونسل/یکساں قومی نصاب کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہا۔ دوسری طرف پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ نے وزارت برائے وفاقی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کی طرف سے تجویز کردہ کریکولم پالیسی اور ماڈل نصابی کتب کو مکمل طور پر اپنایا۔ لہٰذا، یہ اقدام صوبے میں 18ویں آئینی ترمیم کے تحت یکساں قومی نصاب لاگو کرنے میں صوبائی خودمختاری کا ایک من چاہا اطلاق تھا۔
7۔ مزید برآں، سکول ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ پنجاب نے حال ہی میں ناظرہ پڑھانے کے لئے 70,000 نئے اساتذہ کی خدمات حاصل کرنے کا اعلان کیا ہے جب کہ صوبے میں اردو، انگریزی، ریاضی اور سائنس کے مضامین کے لئے اساتذہ کی شدید قلت ہے۔ (بنیادی مضامین کی تعلیم کا ہرج کرنا کیسے مناسب ہے جن پرتعلیمی نتائج کا انحصار ہے؟ وسائل کی کمی کے پیش نظر یہ اقدام بچوں کے ساتھ ناانصافی، نیز معیاری تعلیم کی فراہمی اور مساوات کے حق کی نفی ہے)۔
مذکورہ بالا بحث کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ پنجاب میں مختلف متعلقین سے، بلامشاورت، من پسند اور متضاد پالیسی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ متذکرہ اقدامات چونکہ اکثریتی مذہب سے متعلق ہیں، خدشہ ہے کہ اقلیتی طلبہ کو امتیازی سلوک اور نفسیاتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لہٰذا یہ اقدامات صوبے میں مذہبی رواداری اور قانون کی بالادستی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ 2020 میں پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ ایکٹ 2015 میں ترمیم متعارف کروائی گئی جس سے "یکساں نصاب" کی پالیسی کے حوالے سے ابہام پیدا ہوا ہے جو کہ "سرکاری تعلیم" اور "مذہبی تعلیم" کے تصور اور مقاصد سے بھی متصادم ہے۔ یہ اقدامات اقلیت، اکثریت تمام طلبہ کے لئے غیر مفید ہیں۔
ایک عالم کی رائے یہ ہے کہ تعلیمی پالیسی اور درسی کُتب کا زور ظاہری مذہبیت، عربی زبان اور مذہبی مواد کے حفظ پر ہے جس سے بچوں کو ایماندار، ذمہ دار اور خدا ترس بنانے پر ہے یعنی مذہبی تعلیم کے مقاصد پر سنجیدہ توجہ نہیں مل رہی، البتہ طلبہ پر تحریری مواد کا اچھا خاصا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ حالیہ پالیسی اقدامات بنیادی مہارتوں، ذخیرہ الفاظ، ذہنی وسعت، شہری ذمہ داریوں نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں کی شمولیت جیسے ضروری اہداف کے حصول پر توجہ مرکوز نہیں کر رہے ہیں۔
تعلیم کے شعبہ سے ہونے والے اس سلوک کو پالیسی کے غدر کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے؟ یہ تو تعلیم عامہ اور لازمی پرائمری تعلیم جیسے اہداف سے واضح انحراف ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ بچوں پر اضافی مواد پر مبنی کتابوں خاص طور پر نمائشی مذہبیت کا بوجھ لادنے سے علمی افلاس میں کیسے کمی واقع ہوگی؟