محبت کرنے کے لیے پہلے اپنے آپ سے، پھر گھر والوں سے، معاشرے سے، (بے جاء) روایات سے، قانون سے، حکومت سے اور پھر ریاست سے اجازت لو تب کہیں جا کے آپ محبت کر سکتے ہو یا اس کا اظہار کر سکتے ہو۔ ایک لمبی قطار ہے جس میں کھڑے ہونا پڑتا ہے اور اسی اجازت نامے کے چکر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ یونہی لڑھکتے رہنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی خوش نصیب یہ سب رکاوٹیں عبور کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتا ہے تو اس سب کے بعد بھی اس کی خلاصی ہوتی نظر نہیں آتی۔ اسے اس ساری تگ و دو کے بعد بھی سوالیہ نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ متعصّب اور محرُوم نگاہیں مسلسل سینہ چھلنی کرتی رہتی ہیں۔ ایسے ایسے لوگوں کے سامنے بھی اپنی محبت کے لیے جوابدہ ہونا پڑتا ہے جنہیں عام حالات میں منہ لگانا بھی گوارہ نہیں کیا جاتا۔
اس کے برعکس اسی معاشرے میں اگر آپ کسی سے نفرت کرنا چاہتے ہیں، اس سے متعلق تعصب رکھنا چاہتے ہیں، بُغض رکھنا چاہتے ہیں، انتقام لینا چاہتے ہیں، زیادتی کرنا چاہتے ہیں، کسی کا حق مارنا چاہتے ہیں، کسی مظلوم کی جان لینا چاہتے ہیں، کسی کا مال کھانا چاہتے ہیں، کسی کو ہراساں کرنا چاہتے ہیں، کسی کو اغواء کرنا چاہتے ہیں یا کسی کو غیرت کے نام پہ قتل کرنا چاہتے ہیں تو آپ پہ اتنی روک ٹوک نہیں ہے۔ آپ جب چاہیں جیسے چاہیں یہ سب کچھ یا ان میں سے کچھ نہ کچھ آزادی سے کر سکتے ہیں اور آسانی سے ڈکار مار کر اپنی زیادتی ہضم بھی کر سکتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جذبے قید کر دیے جائیں تو مجموعی ماحول گھٹن زدہ ہونا شروع ہو جاتا ہے اور یہ گھٹن کسی بند کمرے میں مسلسل جمع ہونے والے دھوئیں کی مانند ایک خاص سطح پہ پہنچ کر سانس لینا بھی دشوار کرتی جاتی ہے۔ ہم لوگ اپنی برداشت سے بھی زیادہ دھواں اندر لے جا چکے ہیں۔ اب تو یہ حالت ہو گئی ہے کہ یہ دھواں دماغ کو چڑھ گیا ہے اور اسی دھوئیں کے زیر اثر ہم ایسی ایسی مثالیں بنانے میں سرگرم ہیں جو گلشن میں ویرانی کے بیج بوتی جا رہی ہیں۔ اسی بیمار ذہنیت کے ساتھ ہم اس زُعم میں بھی مبتلا ہیں کہ حقیقت اور سچائی بس وہی ہے جو میری آنکھوں کو نظر آ رہی ہے۔ یہی متعفّن ماحول ہمیں پورا ہاتھی دیکھنے سے روک رہا ہے اور اسی نشے کا اثر ہے کہ ہم میں سے جس کو جتنا ہاتھی نظر آتا ہے وہ نا صرف اسی کو پورا ہاتھی سمجھنے لگتا ہے بلکہ وہ زندگی کا مقصد ہی یہ بنا لیتا ہے کہ باقی لوگوں کو بھی اس بات پہ قائل کر کے دم لے گا کہ ہاتھی ایسا ہی ہوتا ہے جو مجھے نظر آ رہا ہے۔
اس اندھیرے ماحول میں بیش تر لوگ فقط ٹامک ٹوئیاں ہی مار رہے ہیں کیونکہ وہ اس سے زیادہ کچھ کرنے کی حالت میں نہیں ہیں۔ ایسے ماحول میں زندہ بچ رہنے کی یہی صورت نظر آتی ہے کہ دروازہ، کھڑکی، چھت یا دیوار توڑ کر تازہ ہوا کو اندر آنے کا اجازت نامہ دے دیا جائے۔ یہی تازہ ہوا ماحول کو خوش گوار بنا کے ہمیں زندگی لوٹا سکتی ہے اور دھوئیں کے یہ بادل چھٹیں گے تب ہی آسمان صاف نظر آئے گا۔ اسی صاف آسمان کے نیچے ہمیں پورا ہاتھی نظر آئے گا اور ہماری یہ غلط فہمی بھی دور ہو جائے گی کہ ہاتھی تو اس سے کہیں بڑا تھا جتنا مجھ اکیلے کو نظر آ رہا تھا۔
ہمارے سماج کو بھی اس وقت ایک ایسی ہی کھڑکی، ایسے ہی کسی ہوا دان کی اشد ضرورت ہے جس میں سے محبت اور برداشت کی تازہ ہوا چھن چھن کر اندر آنے لگے اور ماحول کی گھٹن کو اپنی لانڈری میں پروسیس کرکے باہر پھینکتی رہے۔ فاسد مادے زیادہ دیر تک جمع ہوتے رہیں تو ماحول زہریلا ہو جاتا ہے۔ ان کے نکاس کے لیے ضروری ہے کہ چمنیاں لگائی جائیں، کھڑکیاں کھولی جائیں اور تازہ ہواؤں کو اندر آنے کا راستہ دکھایا جائے۔
محبتوں پہ جہاں سخت پہرے ہوں اور نفرتیں چہار سُو دندناتی پھریں تو ایسی سرزمینوں کا وہی حال ہوتا ہے جو اس وقت ہماری سرزمین کا ہو چکا ہے۔ یہاں سرے سے جینے ہی پر پابندیاں عائد ہیں۔ یہاں آپ محض وجود رکھ سکتے ہیں، جگہ گھیر سکتے ہیں، وزن رکھ سکتے ہیں مگر جی نہیں سکتے اور نہ ہی خود سے سوچ سکتے ہیں۔
نفرت کیا کیا گُل کھلاتی ہے، انتقام کیسے کیسے گلشن اجاڑ دیتا ہے، تعصّب کیسے کیسے دلکش مناظر نظروں سے اوجھل کر دیتا ہے، زیادتی کیسے کیسے اندھیرے پھیلاتی ہے، حسد کیسے کیسے وجود مٹی میں رول دیتا ہے، یہ سب ہم اچھی طرح دیکھ چکے ہیں اور آئے روز اس دیکھا دیکھی کے عذاب سے آنکھیں ویران بھی کر چکے ہیں۔ مگر ہمیں اب کہیں نا کہیں رک جانا ہو گا۔
آج 14 فروری ہے۔ محبت کے اس دن سماج کے ٹھیکے داروں سے دست بستہ گزارش ہے کہ خدارا محبت کو جگہ دے دیں، برداشت کو آگے آنے دیں، رواداری کو قدم جمانے دیں، اختلاف کے حُسن کو سماجی پورٹریٹ میں داخل ہونے دیں اور نفرتوں، وحشتوں، دہشتوں، متعصّب رویوں، خوف و ہراس سے لتھڑے جذبوں، گالیوں، ڈنڈوں، گولیوں، بارُودوں اور آک اُگلتی نظروں کے عفریت کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کریں۔ تعصب اور تنگ نظری کا پنجرہ کھولیں اور محبت کو آزاد کر دیں۔ خدارا لوگوں کو اپنی مرضی سے جینے کے بنیادی حقوق دے دیں۔ محبتوں کو عام کرنے کا وسیلہ بنیں۔ محبت کچھ بھی کر لے، نفرت جتنی بھیانک صورت کسی حال میں بھی اختیار نہیں کر سکتی۔
اگر ہم کسی طور نفرت کے متعفن نالے کے منہ پر بند باندھنے اور محبت کا چشمہ جاری کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر وہ دن دور نہیں جب ہمارا سماج پریشر ککر کے بجائے پھولوں کی خوشبو سے سجے گلستان میں کا روپ دھار لے گا۔
خضر حیات کا یہ مضمون اس سے قبل 'ایک روزن' کی ویب سائٹ پر شائع ہو چکا ہے۔ 14 فروری کی مناسبت سے اسے 'نیا دور' قارئین کے لئے پیش کیا جا رہا ہے۔