گذشتہ ہفتے جب پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 3 ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے، آئی ایم ایف کا وفد بغیر کسی معاہدے پر دستخط کیے پاکستان سے روانہ ہو گیا اور سیاسی جھگڑے شہ سرخیوں پہ چھائے رہے۔ پاکستان کی تاریخ میں کئی مرتبہ ایسے لمحات آئے اور گزر گئے مگر حالیہ عدم استحکام کس طرح ماضی سے مختلف ہے؟
ماضی میں ملک کی مسلح افواج جن کے ہاتھ میں ویٹو کی طاقت رہی ہے، بااثر ثالث کا کردار ادا کرتی رہی ہیں جو کسی بھی بحران کو ختم کرنے یا آگے کا راستہ دکھانے کی صلاحیت رکھتی تھی چاہے یہ صلاحیت عوام میں مقبولیت حاصل کرے یا نہ کرے۔ مگر اس مرتبہ اپنے تمام تر روایتی اثر و رسوخ کے ساتھ فوج اپنے حالیہ بغل بچے عمران خان کی جانب سے شدید حملوں اور کڑی تنقید کی زد میں گھری کھڑی ہے۔
حال ہی میں وائرل ہونے والی ایک ڈرامائی ویڈیو میں عمران خان یہ شکایت کرتے ہوئے نظر آئے کہ پاکستان کی افواج اور آئی ایس آئی چیف ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے مقبول ترین لیڈر کو قتل کروانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ظاہر ہے جس 'مقبول ترین لیڈر' کی جانب عمران خان نے اشارہ کیا ہے، وہ عمران خان کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے؟ شیخ رشید جو دہائیوں سے اس بات پر فخر کرتے آئے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے گھوڑے ہیں، انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا ہے اور اس مرتبہ ان کے دیرینہ سرپرست انہیں بچانے نہیں پہنچے ہیں۔
کیا یہ خلیج 'نیوٹرل' ہو جانے والے اس اعلان کا مظہر ہے جو بار بار کیا گیا ہے؟ یا پھر اس حقیقت کا سادہ سا اظہار ہے کہ عمران خان کے ساتھ تعلقات ختم ہونے کے بعد جی ایچ کیو کے پاس آپشنز ختم ہوتے جا رہے ہیں اور اسے آصف زرداری اور شہباز شریف کی صورت میں موجود ماضی کے ناقابل اعتبار شراکت داروں پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے کم ہوتے اثر و رسوخ کا یہ مرحلہ بھلے عارضی نوعیت ہی کا کیوں نہ ثابت ہو، اس کے نتائج سنگین ہوں گے۔
پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے سامنے اس وقت سب سے بڑا ہدف یہ ہو سکتا ہے کہ عوامی حلقوں میں وہ اپنا تشخص پھر سے بحال کرے، بجائے اس کے کہ وہ محض ریاست کی قومی سلامتی کا دفاع کرنے میں حسبِ سابق اپنا 'مرکزی کردار' ادا کرتی رہے۔ حال ہی میں سبکدوش ہونے والی اعلیٰ فوجی قیادت نہ صرف ملک میں پیدا ہونے والے اس ہمہ جہت بحران کی براہ راست ذمہ دار ہے بلکہ انہوں نے اپنے ادارے، خاص طور پر اس کے اندرونی نظم و ضبط اور احتساب کے عمل کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔
ایک صحافی کی جانب سے چونکا دینے والا دعویٰ سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ کس طرح ایک فوجی جرنیل موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تعیناتی کو روکنے کی سازش تیار کر رہا تھا۔ فوج میں اس طرح کی تقسیم کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن یہ حقیقت کہ جب اس طرح کی تقسیم کی باتیں عوامی حلقوں میں پہنچنے لگیں اور شکوک و شبہات اور قیاس آرائیاں پیدا ہونے لگیں تو اس سے نظم و ضبط اور فعالیت کی پہچان رکھنے والے پاک فوج کے ادارے کی شبیہ کو نقصان پہنچتا ہے فراموش نہیں کی جا سکتی۔ جس طرح ہم فوج کے سیاسی کردار پر تنقید کرتے ہیں، بالکل اسی طرح حالیہ زوال بھلے وہ قلیل مدتی نوعیت کا ہی کیوں نہ ثابت ہو، ریاست پاکستان اور اس کے مفادات کے لئے خطرے کا نشان ہے۔
جہاں ایک طرف ملک معاشی بحران سے باہر آنے کے جتن کر رہا ہے، سیاسی معاملات عدالتوں میں طے کیے جا رہے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے حکام کو صوبہ پنجاب میں انتخابات کا اعلان کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔ غالب امکان ہے کہ یہ فیصلہ اپیل کے ذریعے سے چیلنج ہو جائے گا جس کے بعد حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کے ججز کی جانب سے آئے گا اور یہ مزید عدم استحکام پیدا کر سکتا ہے۔ بعض قانونی ماہرین کے مطابق روک ٹوک سے مبرۤا جوڈیشل ایکٹوازم کے نتیجے میں معزز جج صاحبان قانونی دائرے میں رہتے ہوئے آئین کی تشریح کرنے کے بجائے آئین کو نئے سرے سے لکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ممبران صوبائی اسمبلی کی اہلیت اور نااہلیت سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کا چند ماہ قبل دیا گیا فیصلہ خاص پذیرائی حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔ چند گزرے مہینوں کے دوران کم و بیش ہر سیاسی معرکہ عدالتوں میں پہنچا ہے۔ ان میں سے بعض معاملات قانونی تھے، لیکن بہت سے مسائل محض سیاسی نوعیت کے تھے جن کو نمٹانا سیاسی نمائندوں، الیکشن کمیشن کی طرح کے خصوصی مقاصد کے لئے قائم کردہ آئینی اداروں یا انتظامیہ کی ذمہ داری بنتی تھی۔ سیاسی معاملات کو عدالتوں کے حوالے کرنے سے ملک میں قانون کی حکمرانی ختم ہو کر رہ جائے گی اور آئین پاکستان نے جس طرح تمام اداروں کے الگ الگ دائرے مقرر کیے ہیں، عدلیہ کی مداخلت سے اختیارات کی یہ تقسیم بھی متاثر ہو گی۔
حکمران پی ڈی ایم اتحاد بوکھلاہٹ کا شکار نظر آ رہا ہے کیونکہ اس کے پاس نہ تو موجودہ بحرانوں پر قابو پانے کی صلاحیت ہے اور نہ ہی اسے غیر منتخب اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہے جو اس طرح کے ہنگامی حالات سے نبردآزما ہونے کے لئے بہت ضروری ہوتی ہے۔ فوج نے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں، لگتا ہے جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے ناکام ایڈوینچر کے بعد پاک فوج گھر کی اندرونی صفائی کرنے میں جُٹ چکی ہے۔
اپنے ریمارکس میں معزز جج صاحبان قانون سازی کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں جب کہ چیف جسٹس آف پاکستان یہ فرما رہے ہیں کہ پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ میں صرف ایک ہی وزیراعظم آیا تھا جسے ایماندار کہا جا سکتا ہے (گو کہ اب اٹارنی جنرل کا خط سامنے آیا ہے جس کے مطابق یہ خبر درست نہیں تھی)۔ اگرچہ عدالتی بنج کی جانب سے اس طرح کے ریمارکس بہت زیادہ اہمیت کے حامل نہیں ہوتے کیونکہ اصل اہمیت عدالت کے فیصلوں کو حاصل ہوتی ہے۔ تاہم، جب سے افتخار چودھری کی عدالت 'ٹی وی ٹکر انصاف' میں پڑی ہے، تب سے بنچ کی جانب سے آنے والے ایسے ریمارکس رائے عامہ پر اثرانداز ہونے لگے ہیں اور اندیشہ جنم لیتا ہے کہ ان ریمارکس کی وجہ سے ملک میں جاری سیاسی تفاوت کو مزید ہوا ملے گی۔
اب جب کہ یہ سوال ہمیں آنکھوں میں آنکھیں ڈالے گھور رہا ہے کہ انتخابات کب کروائے جائیں گے تو کتنے امکان نظر آتا ہے کہ سٹیک ہولڈرز 2023 کے لائحہ عمل کے لئے کسی اتفاق رائے پر پہننچ جائیں گے؟ اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ کوئی بھی نہیں جانتا۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اپنی ترجیحات ہو سکتی ہیں مگر یہ کھلے بندوں سیاسی معاملات میں مداخلت کرنے سے احتراز برتے گی۔ سیاسی جماعتیں سینگ پھنسائے کھڑی ہیں اور ایک پارلیمانی جمہوریت کی اولین ضرورت یعنی مذاکرات اور لین دین کو تسلیم کرنے سے انکاری نظر آتی ہیں۔
سیاسی جماعتوں کے اس رویے سے اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی مداخلت کا راستہ کھلتا ہے جو ایسے معاملات پر بھی فیصلے سنا رہے ہیں جو ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔ پاکستان کی تاریخ سکھاتی ہے کہ غیر منتخب اداروں کی جانب سے لیے گئے فیصلے تکنیکی بنیادوں پر چاہے کتنے ہی مضبوط کیوں نہ ہوں، ان کی سیاسی ساکھ نہیں ہوتی اور ان کے نتیجے میں اکثر نئے تنازعات جنم لیتے ہیں۔
پاکستان تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اور ملک کو فوری طور پر سیاسی مفاہمت کی ضرورت ہے جس میں عمران خان اور ان کے سابق محسنوں کا شامل ہونا ضروری ہے۔ اس بات کے امکان نہ ہونے کے برابر ہیں کہ جلد ہی ایسا کچھ ممکن ہو سکے گا۔ کروڑوں کی تعداد میں پاکستانی جو 25 سے 30 فیصد مہنگائی میں پس رہے ہیں جس کی شرح میں آنے والوں دنوں میں مزید اضافہ نظر آئے گا، حکمران طبقے اور اس کی بے حسی کو حقارت بھری نظروں سے تک رہے ہیں۔
اگر جاری خرابی پر توجہ نہ دی گئی تو اس کے نتیجے میں اتنے بڑے پیمانے پر سیاسی اتھل پتھل پیدا ہو گی کہ ایک مرتبہ پھر آمرانہ بندوبست کے دروازے کھلنے کا اندیشہ سر اٹھا سکتا ہے۔