'فوج میں عمران خان کے حمایتی گروہ کے خلاف تحقیقات جاری ہیں'

'فوج میں عمران خان کے حمایتی گروہ کے خلاف تحقیقات جاری ہیں'
وہ افراد جنہوں نے فوج کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے لیے جانے والے کچھ فیصلوں سے روگردانی کی، ان میں ایک تھری سٹار ریٹائرڈ جرنیل بھی شامل ہیں۔ میری اطلاعات ہیں کہ آپریشن کلین اپ ہو رہا ہے، دیکھنا صرف یہ ہے کہ یہ کس حد تک جاتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ جرنیلی کلب اتنا مضبوط ہے کہ ان کے خلاف ثبوت ہونے کے باوجود تحقیقات ایک خاص مرحلے سے آگے نہیں جائیں گی۔ جبکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جنرل عاصم منیر اسے منطقی انجام تک لے جانے کے لئے تیار ہیں۔ جس نیٹ ورک نے فوج کی پالیسی سے ہٹ کر عمران خان کی سپورٹ جاری رکھی، ان کے خلاف ادارے کے اندر تحقیقات ہو رہی ہیں اور ان کے نتیجے میں اگر کوئی نہ کوئی کارروائی ہوتی ہے تو یہ پاکستان کی تاریخ میں اہم ترین پیش رفت ہو گی۔ یہ کہنا ہے صحافی کامران یوسف کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ علی وزیر کا رہا ہونا ایک بہت بڑا اشارہ ہے کہ موجود اسٹیبلشمنٹ جنرل باجوہ کی پالیسیوں سے ہٹ کر چلنا شروع ہو چکی ہے۔ افسوس ہے کہ یہ سگنل بہت دیر کے بعد آیا ہے۔ میری جن ذرائع سے بات ہوئی انہوں نے بتایا کہ جنرل باجوہ رجیم کے زمانے میں چلنے والی پالیسیوں میں اب آہستہ آہستہ تبدیلی نظر آئے گی۔ موجودہ حکومت اس لحاظ سے فائدے میں ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ ان پر الیکشن کروانے کے لئے دباؤ نہیں ڈال رہی۔ اسٹیبلشمنٹ نے یہ فیصلہ مکمل طور پر پی ڈی ایم پر چھوڑ دیا ہے۔ لگتا ہے صدر عارف علوی نے اپنے قائد کے کہنے پر منی بجٹ کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کرنے والا پتا کھیلا ہے اور شاید وہ اس کی مدد سے انتخابات کی تاریخ پر کچھ لین دین کرنا چاہ رہے ہیں۔

رپورٹر شہباز میاں نے کہا کہ ایک جانب ایسے لوگوں کو قید کر دیا جاتا ہے جو آئین اور قانون کا احترام کرتے ہیں اور دوسری جانب تحریک طالبان جیسی کالعدم تنظیمیں پھر سے سر اٹھا رہی ہیں۔ علی وزیر کے ہاتھ میں بندوق نہیں ہے۔ وہ پارلیمنٹ کا حصہ ہیں اور آئین اور قانون کے ساتھ چلنا چاہ رہے ہیں۔ جنرل باجوہ کی پالیسیوں کا خمیازہ ہم اب تک بھگت رہے ہیں۔ جو سہولتیں فواد چودھری جیسے سیاست دانوں کو ملتی ہیں افسوس کی بات ہے کہ وہ علی وزیر جیسے قیدیوں کو نہیں دی جاتیں۔

انہوں نے کہا کہ منی بجٹ کے حوالے سے صدر عارف علوی پر صرف پی ڈی ایم کا دباؤ نہیں بلکہ کچھ طاقتور حلقوں کا بھی دباؤ ہے اس لیے صدر اس وقت امتحان میں ہیں۔ کوئی درمیانی راہ نکال کر حکومت آرڈی ننس پاس کروانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ عدالت الیکشن کا کہہ بھی دیتی ہے تو الیکشن ہوتے نظر نہیں آ رہے کیونکہ معاشی حالات ایسے ہیں کہ الیکشن کروانے کے لئے فنڈز جاری نہیں ہوں گے۔ طاقتور حلقے بھی اس وقت ملک میں الیکشن کروانے کے حق میں نہیں ہیں۔

مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ ایک ہی ملک میں مختلف صوبوں اور قوموں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ ایک ہی جرم میں مختلف طرح کا سلوک کیا جائے، یہ ریاست کی نفی ہے۔ اگر صدر عارف علوی تاخیری حربوں سے معاشی بحران میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں اور اپنی پارٹی کے لئے فوائد لینے کے لئے لین دین کرتے ہیں تو یہ ایک سنگین جرم ہو گا۔

میزبان رضا رومی نے کہا کہ جنرل باجوہ نے اپنی جس ڈاکٹرائن کے تحت ایک شخص کو وزیراعظم کی کرسی پر بٹھایا آج وہی ان کا سب سے بڑا نقاد ہے۔ یہ شخص اپنے پیچھے لاکھوں لوگ لگا کر ان کی ایسی درگت بنا رہے ہیں کہ ایسا سلوک ضیاء الحق کے ساتھ بھی نہیں ہوا۔

'خبر سے آگے' ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔