یہ ہمارے بچپن و لڑکپن کے جمعے تھے۔ گاؤں کی ایک ہی جامع مسجد تھی۔ اتنے لاؤڈ سپیکر نہیں بدلے گئے تھے جتنے مولوی بدلے گئے۔
ایک قاری صاحب ایک معذور بارہ تیرہ سالہ لڑکی کا ریپ کر کے اسے اپنے حجرے کے کمرے میں بند کر کے ایسے بھاگے کہ پتہ ہی نہیں چلا کہ اسے کہاں پناہ ملی ہو گی۔
پھر ایک مولوی صاحب ایک دس بارہ سالہ لڑکے کے ساتھ بدفعلی کرتے پکڑے گئے، سو نکال دیے گئے۔
سو انہی مولویوں کے پیچھے ہمارے جمعے ادا ہوا کرتے تھے۔
پھر وقت دوڑا اور ہم اسی دوڑ میں ناروے آ پہنچے کہ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔
شروع میں فراغت تھی تو اسی باقاعدگی اور اہتمام سے جمعے کی نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ پھر غمِ عشق اور غمِ روزگار نے آہستہ آہستہ جمعوں سے چھٹیاں دینی شروع کر دیں۔ مگر گاہے گاہے جمعہ پڑھنے جاتے رہے۔
جتنے مکتبہ ہائے (بـے) فکر ہیں اوسلو میں، قریب قریب سبھی کی مساجد میں جمعے ادا کیـے۔
پورے ناروے میں قریباً اڑھائی لاکھ مسلمان بستے ہیں اور ان اڑھائی لاکھ مسلمانوں کے لئے 220 مساجد ہیں۔
اوسلو میں 60 کے قریب مساجد ہیں اور ان ساٹھ مساجد کو 2018 میں حکومت کی طرف سے 94 ملین کرونرز ملے ہیں۔
المیہ مگر یہ ہے اتنی مساجد ہونے کے باوجود ہر جمعے کو، ہر فطر و بقر عید پہ، اور رمضان کی ہر تراویح کے بعد مسجد کے لئے پیسے مانگنے والے آپ کے آگے چادر لے کے پھرتے ہیں کہ مسجد کی خدمت کرو اور پھر اور مساجد کی تعمیر کے نام پہ اور پیسے دو۔
اب سوال تو یہ ہے کہ خدا "ایک" ہے تو اتنے گھروں کی "ایک خدا" کو کیا ضرورت ہے؟
اب تو اکثر کوئی ساتھی (بھولے سے) جمعہ پڑھنے جانے کا کہے تو ہمارا جواب یہی ہوتا ہے "یار، وہ جمعہ پڑھانے کے پیسے بھی لیتے ہیں"۔