2 ستمبر 2018 کو اپنے کالم '2018 کے انتخابات اور بھان متی کا کنبہ' میں عرض کیا تھا کہ باوجود تمام مثبت اقدامات کے ان انتخابات کے نتیجے میں جو جماعت فاتح قرار پائی، اس کے پاس بھی اکثریت نہیں تھی۔ لہٰذا، کاریگروں نے شکار دھونڈنے شروع کیے اور شدید نظریاتی اختلاف رکھنے والی جماعتوں اور شخصیات کو ایک چھتری تلے جمع کیا اور یوں صرف 4 ووٹ کی اکثریت سے حکومت تشکیل پا سکی۔ بھان متی نے اپنی دانست میں جو کنبہ جوڑا وہ اس قدر مضحکہ خیز ہے کہ بقول غالب:
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
اگر غور کیا جائے تو اس اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں کے درمیان پہلے سے شدید اختلافات موجود تھے لیکن کاریگروں نے انہیں حکومت سازی کیلئے مجبور کیا اور یوں یہ حکومت بن گئی۔ کیا کوئی اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ موجودہ وزیراعظم نے چودھری برادران کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو نہیں کہا؟ کون ہے جو متحدہ قومی موومنٹ کے بارے میں وزیراعظم کے ارشادات عالیہ سے واقف نہیں؟ حکومت بنانے کیلئے بلوچستان نیشنل پارٹی سے معاہدہ کیا لیکن اس کے تحفظات دور کرنا وزیراعظم کے دائرہ اختیار میں ہی نہیں تھا۔
دو روز قبل متحدہ قومی موومنٹ کے وزیر جناب خالد مقبول صدیقی نے پریس کانفرنس میں اپنے استعفیٰ کا اعلان کر دیا۔ بی این پی کے صدر جناب اختر جان مینگل نے اپنی پارٹی کا اجلاس اسی مہینہ کی 19 تاریخ کو طلب کر لیا ہے اور ان کے ارادے بھی نیک دکھائی نہیں دیتے۔ چودھری برادران شروع سے ہی شکوہ کناں تھے لیکن مولانا کے دھرنے کے دوران جو کچھ ہوا اس کے بعد ان کے تحفظات بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ واضح رہے کہ موجودہ حکومت کے اپنے صرف 156 ووٹ ہیں اور یہ اتحادیوں کے ووٹوں پر قائم ہے۔
خواجہ آصف سے کئی معاملات پر اختلاف کرنے کی گنجائش ہے لیکن وہ ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور جب وہ اسمبلی میں حکومتی اراکین کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ جو ہمیں معلوم ہے وہ آپ کو معلوم نہیں تو ان کی بات کی گہرائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس حکومت کو شائد معلوم نہ ہو لیکن پس پردہ بہت کچھ چل رہا ہے، جو زیادہ سے زیادہ ایک مہینے میں قوم کے سامنے آ جائے گا بقول شاعر:
یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ