یہ الفاظ تھے پاکستانی نوجوان شہیرا جلیل الباسط کے جو گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں نوجوانوں کو قانون سازی کے عمل میں شامل کروانے کے لئے قومی اسمبلی میں قانون سازی کی کوشش کر رہی ہیں۔
شہیرا نے ایک طویل فیس بک پوسٹ میں قومی اسمبلی میں بل جمع کروانے کے تجربے کے بارے میں لکھا، ان کا کہنا تھا کہ:
'میں نے نومبر 2021 میں یوتھ کوٹہ بل کا مسودہ تیار کیا اور دو سال بعد دو ایم این ایز کی توثیق کے بعد اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔ ایک مثالی دنیا میں اگلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ بل کو اگلے اجلاس میں پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔'
شہیرا نے مزید لکھا کہ 29 دسمبر 2021 کو بالآخر قومی اسمبلی کے ایجنڈے پر تھا۔ اجلاس سہ پہر تین بجے شروع ہونا تھا۔ لیکن یہ شام 4:30 پر شروع ہوا کیونکہ زیادہ تر ایم این ایز اجلاس میں ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے آئے۔ اجلاس شروع ہونے کے بعد بھی اسمبلی میں مکمل ہنگامہ برپا رہا۔
'وزیٹر ایریا میں بیٹھے ہوئے ہم عوام اپنے سامنے بیٹھے ایم این ایز سے کم از کم 3 گنا زیادہ نظم و ضبط کا مظاہرہ کر رہے تھے۔'
شہیرا نے بتایا کہ 'بہت سے ایم این ایز تواسمبلی میں جو بھی بات ہو رہی تھی اسے سنتے ہی نہیں تھے۔ ابھی اجلاس کے پہلے ایجنڈے پر ہی بحث چل رہی تھی کہ ایم این ایز ایک ایک کر کے اسمبلی چھوڑنے لگے۔ ایسا لگتا تھا کہ بہت سے ایم این ایز صرف حاضری لگانے آئے تھے اور پھر چلے گئے۔ اسی طرح اچانک بغیر کسی وجہ کے اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔'
شہیرا جلیل نے مزید بتایا کہ 'آج یہ بل دوبارہ اسمبلی کے ایجنڈے پر تھا اور حسب توقع آج کا اجلاس بھی اسی طرح درمیان میں ملتوی کر دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ریکارڈ کے مطابق قومی اسمبلی کے کئی اجلاس بلا وجہ اس طرح ملتوی ہوتے ہیں۔ مطلب یہ الگ ہی منظر چل رہا ہے۔
شہیرا نے پاکستان میں قانون سازی کے عمل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسی طرح قانون سازی کا ایک سادہ پہلا قدم یعنی صرف ایک بل پیش کرنے میں دن، پھر ہفتے، پھر مہینوں اور آخرکار سال لگتے ہیں۔
نوجوان سماجی کارکن شہیرا نے عام شہری کی قومی اسمبلی کی روداد کو بتاتے ہوئے لکھا کہ 'ایک عام شہری کے ساتھ قومی اسمبلی میں جو سلوک ہوتا ہے وہ بہت "خوبصورت" ہے۔ غضب کی بیعزتی ہوتی ہے۔'
انہوں نے بتایا کہ '29 دسمبر کو عملے کے ایک شخص نے مجھے اسمبلی سے باہر نکالنے کی دھمکی دی۔ کیونکہ ان کے بقول میں ایک ایسے گیٹ کے 5 انچ قریب کھڑی تھی جہاں سے ایم این اے باہر نکلتے ہیں۔ اس نے مجھے دور جانے کو کہا۔ میں وہاں سے چلی گئی۔ لیکن پھر بھی، اس نے چیخنا اور دھمکیاں دینا جاری رکھا تاکہ سب کو معلوم ہو کہ باس کون ہے۔ کئی بار معافی مانگنے کے بعد بھی وہ دھمکیاں دیتا رہا۔
شہیرا نے مزید لکھا کہ 'میں نے قومی اسمبلی کے عملے کو ایک باپ کی تذلیل کرتے ہوئے بھی دیکھا کیونکہ وہ اپنے چھوٹے بچے کے ساتھ اسمبلی ہال کے باہر (کافی دور) بیٹھا تھا۔
اپنی بات کا اختتام کرتے ہوئے شہیرا کا کہنا تھا کہ 'کوئی بھی خصوصی سلوک کے لئے نہیں کہہ رہا ہے اور عالمی سطح پر پارلیمنٹ کے کچھ پروٹوکول ہوتے ہیں لیکن کم از کم عوام کا مذاق نہ اڑائیں، خاص طور پر ایسی جگہ پر! خیر بل ایک بار پھر تاخیر کا شکار ہو گیا'
اپنی اگلی پوسٹ میں شہیرا نے نئے انکشافات کرتے ہوئے لکھا کہ
'اس کے بعد اتفاقاً میں نے پی ایم ایل این کے شاہد خاقان عباسی کو ان کے چیمبر کے باہر دیکھا۔ میں ان کے پاس گئی اور بل پر بحث کرنے کے لیے چند منٹ کی درخواست کی اور وہ مان گئے' اس کے بعد میں ایک کمرے میں گئی جہاں مسلم لیگ ن کے 4 رہنما بیٹھے تھے اور شاہد خاقان عباسی نے ان کے سامنے میرا یوتھ کوٹہ بل پیش کر دیا۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'اگر یہ بل قائمہ کمیٹی کے پاس آتا ہے تو ان کی جماعت اس بل کی حمایت پر غور کرے گی لیکن انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ وقت کا ضیاع ہے کیونکہ اس طرح کے پرائیویٹ ممبر بل شاذ و نادر ہی منظور ہوتے ہیں۔'
مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے یہ بھی کہا کہ' 30 فیصد نوجوانوں کو الیکشن ٹکٹ کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ نوجوانوں کو سیاسی تجربہ حاصل کرنے کے بعد ہی قیادت ملنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاسی میدان کھلا ہے اور کوئی بھی نوجوان ایم این اے بن سکتا ہے۔'
خیال رہے کہ شہیرا جلیل الباسط وہ طالبہ ہیں جو اپنی کزن سبیکا شیخ کے ہمراہ امریکی ریاست ٹیکسس میں پڑھنے گئیں اور ان کی کزن سبیکا شیخ 18 مئی 2018 کو امریکی ریاست ٹیکساس کے سانٹافے ہائی سکول میں فائرنگ سے ہلاک ہوگئی۔ اپنی کزن کی ہلاکت کے بعد شہیرا جلیل الباسط میں امریکی پارلیمان میں سبیکا شیخ کے نام سے گن ریفارم بل متعارف کروایا۔
اس بل کے تحت امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار اسلحے کی خریداری سے لے کر اسلحہ استعمال کرنے اور اس کے بعد کے حوالے سے قانون سازی کی گئی تھی۔