انتخابات کے بعد بھی پاکستان کا معاشی بحران قابو میں نہیں آئے گا

پاکستان کے معروف ماہرین اقتصادیات کے ساتھ بات چیت کی روشنی میں ایک بات یقینی ہو جاتی ہے کہ انتخابات کے بعد کا معاشی منظرنامہ مایوس کن ہے۔ مزید براں ایسا لگتا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے کوئی قابل عمل روڈ میپ پیش نہیں کیا، اس پر عمل درآمد کے لیے ایک قابل ٹیم پیش کرنا تو دور کی بات ہے۔

05:08 PM, 14 Jan, 2024

ڈاکٹر حسن ظفر

میرے ساتھ حالیہ انٹرویوز میں پاکستان کے ممتاز ماہرین اقتصادیات نے متفقہ طور پر اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان کی معیشت میں بہتری کا امکان نہیں ہے۔ ایک تاریک تصویر پیش کرتے ہوئے، اگلے ماہ ایک منتخب حکومت کی آمد کے بعد صورت حال مزید خراب ہونے کا امکان ہے۔ اس پیش گوئی کے پیچھے دلیل درج ذیل ہے۔

آنے والی حکومت روزگار پیدا کرنے کے وعدوں کے ساتھ اقتدار سنبھالے گی، لیکن روزگار کے مواقع نایاب رہنے کا امکان ہے۔ پی ڈی ایم کی سابقہ حکومت نے جی ڈی پی کی شرح نمو کو تقریبا 0.29 فیصد پہ چھوڑا تھا، جو اقتدار سنبھالنے کے وقت 6 فیصد تھی۔ اس کے نتیجے میں کاروبار میں محدود توسیع ہوئی اور نتیجتاً روزگار کے نئے مواقع میں کمی واقع ہوئی۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے انکشاف کیا کہ پاکستان کی معیشت پر حکومت کا اثر تقریباً 80 فیصد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قومی معیشت کا صرف 20 فیصد مکمل طور پر نجی اداروں کے کنٹرول میں ہے۔ اس تناظر کو مدنظر رکھتے ہوئے 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے بعد روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا وعدہ کرنے والی منتخب حکومت کی آمد سے صورت حال مزید خراب ہونے کا امکان ہے۔ اس منجمد معیشت میں نجی شعبہ پہلے ہی اضافی ملازمتیں پیدا کرنے کے لئے جدوجہد کر رہا ہے، چنانچہ پارٹی کارکنوں اور ان کے اہل خانہ کو پہلے سے ہی بھرے ہوئے سرکاری شعبے کے کاروباری اداروں میں بھرتی کرنے سے معیشت پر مزید بوجھ پڑے گا۔

سابق مشیر برائے مالی امور ڈاکٹر خاقان حسن نجیب نے معیشت کو صحیح سمت میں گامزن کرنے کے لئے ڈھانچہ جاتی اصلاحات اور زرعی شعبے کو ترجیح دینے پر زور دیا۔ اس سوال کے جواب میں کہ سیاسی جماعتوں اور بیوروکریٹس کی موجودگی میں یہ اصلاحات کیسے ہو سکتی ہیں، انہوں نے نشاندہی کی کہ اگر ہم خود ان کا آغاز نہیں کریں گے تو ہمارے امداد دہندگان لازمی طور پر ان کو نافذ کریں گے۔ اس سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ تاخیر کے نتیجے میں مزید کتنا نقصان ہو گا!

ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر حسنین جاوید نے ہمارے ایک آن لائن ڈائیلاگ میں وضاحت کی کہ امریکی ڈالر کا موجودہ استحکام منجمد معیشت کی وجہ سے ہے۔ درآمدات کو کم کرنے کا مطلب ہے کہ ڈالر برقرار رہے۔ جیسا کہ ایک امریکی سٹینڈ اپ کامیڈین، اداکار اور سماجی مبصر ول راجرز نے ایک بار کہا تھا، 'اپنے پیسے کو دوگنا کرنے کا تیز ترین طریقہ یہ ہے کہ اسے تہہ کر کے اپنی پچھلی جیب میں ڈال لیں'۔ موجودہ نگران حکومت نے چیزوں کو اچھا دکھانے کے لئے بالکل یہی طریقہ استعمال کیا ہے۔ البتہ اس کا مطلب کسی بھی متحرک کاروباری سرگرمی یا صنعتی توسیع کی عدم موجودگی ہے۔ جب صنعت تیز رفتاری سے چلتی ہے تو اسے مشینری کے سپیئر پارٹس اور ایندھن فراہم کرنے کے لیے تیل کی ضرورت ہوتی ہے اور ان دونوں کے لیے غیر ملکی زرمبادلہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا نگران فنانس ٹیم نے جس جادو کی چھڑی کا استعمال کیا وہ معیشت کو منجمد کرنا تھا۔ سب کچھ وہیں رہے جہاں وہ تھا، نتیجہ یہ کہ نئی نوکریاں بھی نہیں ہیں۔ چنانچہ جب منتخب حکومت معاملات سنبھالے گی تو اسے قوم کو کوئی ریلیف دینے کے بجائے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ورلڈ بینک پاکستان کے ڈائریکٹر ناجی بن ہاسین نے یو این ڈی پی کی اشاعت ڈویلپمنٹ ایڈووکیٹ پاکستان کے نومبر 2023 کے شمارے میں پاکستان کی معیشت کے بارے میں ایک تکلیف دہ بیان دیا۔ بن ہاسین کے مطابق پاکستان کا معاشی ماڈل تباہ ہو چکا ہے جس سے محض ملک کی اشرافیہ کو فائدہ ہو رہا ہے۔ عام آدمی کے لئے اس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں کے لئے بیداری کی گھنٹی کی طرح ہو سکتا ہے جو چیزوں کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ جب منتخب حکومت اقتدار سنبھالے گی تو کچھ بھی تبدیل نہیں ہو گا، یہ صرف بدتر ہو جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے۔

پی آئی اے، پاکستان ریلویز اور پی ٹی وی جیسے دو سو سے زائد سرکاری ادارے بیوروکریسی اور سیاست دانوں کو یکساں طور پر فائدہ پہنچاتے ہیں۔ بیوروکریسی ان منصوبوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کارپوریشنوں کو اہم عہدوں پر چلانے کے لئے منافع بخش پوسٹنگ کے ذریعے فائدہ اٹھاتی ہے جبکہ سیاست دان ان جگہوں پر دیگر فوائد کے علاوہ اپنے دوستوں اور خاندان کو ملازمتیں دلا کے فائدہ پہنچاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں اور بیوروکریسی دونوں کی انگلیاں اس چٹنی میں ڈوبی ہوئی ہیں جس سے وہ مل کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان قوتوں کی جانب سے نجکاری کی سمت میں کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی اور نا ہی کی جانے کی امید رکھنی چاہیے۔ جب عالمی بینک اور آئی ایم ایف جیسی ڈونر ایجنسیوں کی طرف سے دباؤ بڑھتا ہے تو وہ پورے عمل کو سست یا غیر منافع بخش ظاہر کرتے ہیں جس سے چیزوں کو ویسے ہی چھوڑنا بہتر لگتا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے آئندہ انتخابات کے لیے 10 نکاتی منشور کا اعلان کرتے ہوئے 17 وزارتوں کو ختم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ اس تزویراتی اقدام کا مقصد 18ویں ترمیم کی روشنی میں وفاقی بجٹ پر بوجھ کو کم کرنا ہے، جہاں ان 17 وزارتوں میں سے زیادہ تر صوبائی ذمہ داری بن چکی ہیں۔ اس اقدام کا مطلب یہ بھی ہو گا کہ بیوروکریسی کو سائز میں کم کیا جائے اور اس طرح ان کی پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی تاریخی غلطی کو درست کیا جائے جنہوں نے 1972 میں کاروبار اور صنعتوں کو نیشنلائز کرنے کا آغاز کیا تھا۔ اس کے بعد سے پاکستان کی معیشت بیوروکریٹک پیچیدگیوں میں پھنس کے رہ گئی، جس کی وجہ سے کاروبار اور صنعتوں کے قیام اور آپریشن میں لامتناہی رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں۔ ان 17 وزارتوں کے خاتمے سے غیر پیداواری دفاتر کی معیشت میں کمی آئے گی، جس مطالبے پر ڈونر ایجنسیوں کی جانب سے مسلسل زور دیا جاتا رہا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو۔

پاکستان کے معروف ماہرین اقتصادیات کے ساتھ بات چیت کی روشنی میں ایک بات یقینی ہو جاتی ہے کہ انتخابات کے بعد کا معاشی منظرنامہ مایوس کن ہے۔ مزید براں ایسا لگتا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے کوئی قابل عمل روڈ میپ پیش نہیں کیا، اس پر عمل درآمد کے لیے ایک قابل ٹیم پیش کرنا تو دور کی بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے میڈیا کی دنیا میں سیاسی پنڈتوں کے مطالعے اور خواہشات کے باوجود، جو اس بات پر بہت کم توجہ دیتے ہیں کہ کس طرح سیاست معیشت سے غیر متزلزل طور پر منسلک ہے، اگلی حکومت اس ملک میں پہلے سے ہی مایوس عوام کی توقعات کو پورا کرنے کے بجائے چیلنجوں سے نمٹنے کی جدوجہد کرے گی۔ دیکھتے ہیں سیاسی نقشے پر پی ٹی آئی کی قیادت کی عدم موجودگی سے ان انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی مایوسی آنے والی حکومت کی مشکلات میں مزید کتنا اضافہ کرے گی۔

مزید براں اگلی حکومت اپنی شکل وصورت سے قطع نظر اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد آئی ایم ایف کے ساتھ معاملہ کرے گی (یاد رہے کہ پاکستان نے 2026 تک 77 بلین ڈالر کا قرضہ واپس کرنا ہے)۔ اس کے بعد اسے رمضان کے مہینے میں غذائی افراط زر پر قابو پانے کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گرمیوں میں بجلی کی طلب بڑھنے سے گردشی قرضوں کا معاملہ سر اٹھائے گا اور اس سب کے باعث پہلے 6 ماہ بے حد تھکا دینے والے لگیں گے، تاوقتیکہ حکومت جنون میں کسی چٹان سے ٹکرا جائے۔

کیا پھر قوم سال 2025 میں ایک اور انتخابی معرکے کے لئے خود کو تیار رکھے؟ اس طرح کے امکانات کی وضاحت آنے والے جمہوری سیٹ اپ کی پہلی سہ ماہی میں یقینی طور پر ہو جائے گی۔

مزیدخبریں