معاملہ شروع کہاں سے ہوا؟
بی بی سی نےبتایا ہے کہ درخواست گزار کے مطابق 20 سالہ بیٹی جو کہ ایک مقامی پرائیویٹ سکول میں پڑھتی تھی، جس لڑکی کے ساتھ اسکے تعلقات قائم ہوئے وہ بھی اس کے گھر کے پاس ہی رہتی تھی اور اس نے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اسی پرائیویٹ سکول میں بطور استاد نوکری حاصل کی تھی جہاں انکی بیٹی پڑھتی تھی۔
درخواست گزار کے مطابق جب اسے معلوم ہوا کہ ان دونوں کے درمیان ناجائز تعلقات ہیں تو اُنھوں نے اپنی بیٹی کو سکول جانے سے روک دیا لیکن اس کے باوجود بھی ان دونوں کے آپس میں تعلقات رہے۔ جبکہ کچھ عرصہ کے بعد دوسری لڑکی نے جعلسازی کے ذریعے اپنے شناختی کارڈ میں خود کو لڑکا ظاہر کیا اور کچھ دنوں کے بعد دونوں گھر سے بھاگ گئے اور کورٹ میرج کرلی۔
راولپنڈی کی مقامی عدالت نے بھی حقائق کو دیکھے بغیر ان کو میرج سرٹیفکیٹ جاری کردیا۔
اس درخواست میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جب درخواست گزار کو اس بات کا علم ہوا تو اُنھوں نے مقامی پولیس سے رابطہ کیا اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بارے میں کہا لیکن ان کی درخواست پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔
لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی اس پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مذہب اسلام میں ہم جنسوں کے درمیان شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے اور اس طرح کے تعلقات نہ صرف مذہب بلکہ پاکستانی معاشرتی روایات کے بھی خلاف ہے۔
اس پٹیشن میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت لاہور ایڈشنل سیشن جج کی عدالت کی طرف سے جاری کیے گئے میرج سرٹیفکیٹ کو منسوخ کرے
انہوں نے استدعا کی کہ اس کی بیٹی کو ورغلانے اور شناختی کارڈ میں خود کو لڑکا ظاہر کرنے پر جلعسازی کا ارتکاب کرنے والی لڑکی کے خلاف بھی قانونی کارروائی کرے۔
وکیل کے مطابق ان کے موکل کی بیٹی سے جس لڑکی نے ’شادی‘ کی ہے، اس سے جب رابطہ ہوا تو انھوں نے بتایا کہ اس نے اپنی جنس تبدیل کروائی ہے جبکہ درخواست گزار کے مطابق پاکستان میں جنس کی تبدیلی ناممکن بھی ہے اور غیر شرعی بھی ہے۔ عدالت نے مقامی پولیس کو پابند کیا ہے کہ وہ دونوں لڑکیوں کو آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش کریں