جنگ اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لندن میں جہانگیر ترین کی سرگرمیوں کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں لیکن پی ٹی آئی رہنما نے کوئی سیاسی ملاقاتیں نہیں کیں۔
جہانگیر ترین لندن سے 60 میل دور اپنے کنٹری ہوم سے لندن کے 4 دورے سینٹرل لندن میں ڈاکٹر کے پاس معائنے کے لیے کیے۔ پی ٹی آئی برطانیہ اور دیگر جماعتوں کے متعدد افراد نے ملاقات کے لیے جہانگیر ترین کو پیغامات بھجوائے تاہم انہوں نے وسیع رابطوں اور ملاقاتوں سے گریز کیا اور پس منظر میں رہنے کو ترجیح دی۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ جہانگیر ترین کی میڈیکل ہسٹری سے واقفیت رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین برسوں سے علاج کیلئے لندن آرہے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران انہوں نے اپنی صحت پر توجہ دینے کے لیے وقت نکالا۔ جہانگیر ترین کو کینسر کا عارضہ تھا جس سے وہ کامیابی سے صحت یاب ہوگئے تھے تاہم ایک اور سنگین مسئلے کے لئے انہیں لندن میں ایک سپیشلسٹ سے باقاعدہ چیک اپ اور علاج کی ضرورت رہتی ہے۔
جہانگیر ترین کی اس بیماری کے متعلق تفصیلات نہیں بتائی گئیں تاہم تصدیق کی گئی ہے کہ یہ بیماری شدید نوعیت کی ہے اور اس کے مناسب علاج کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ جہانگیر ترین گذشتہ دنوں لندن گئے تھے جس کے بعد ان کے اور نواز شریف کے درمیان ملاقاتوں کی افواہوں نے زور پکڑ لیا تھا۔
ذرائع کے دعویٰ سے متعلق سوشل میڈیا پر خبریں گردش کررہی تھیں کہ وزیراعظم عمران خان سے ناراضگی اور شوگر سکینڈل میں نام آنے کے بعد جہانگیر ترین نے لندن آتے ہی دو مرتبہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ملاقات کے لیے پیغام بھجوایا۔ تاہم پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر ترین نے کہا کہ میرا نواز شریف سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ شریف خاندان کے خلاف عمران خان کے ساتھ مل کر جدوجہد کی، میں ایسی حرکت کا تصور بھی نہیں کرسکتا، جہانگیر ترین نے کہا کہ ڈوبتی کشتی کے سہارے کیلئے میرا کندھا استعمال نہ کیا جائے۔