شہری منصوبہ بندی کے بنیادی حقائق اور عوامل

05:19 PM, 14 Jul, 2020

راجا مسرور حسن
شہری منصوبہ بندی میں کچھ بنیادی عوامل کو دھیان میں رکھنے سے شہروں میں ماحولیاتی تصادم اور تخریب پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس طرح یہ شہر معاشی اعتبار سے خود انحصاری کی طرف گامزن ہو سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان شہروں میں آبادی کے پھیلاؤ کو بھی روکا جا سکتا ہے۔

سب سے پہلے کسی بھی خطہ کی ایکالوجی کو پیش نظر رکھا جاتا ہے جس میں قدرتی آفات، پانی کے ذخائر، قدرتی سبزہ زار، سیلاب، جانور، نباتات اور اس خطہ میں پائی جانے والی بیماریوں کا مکمل معروضی جائزہ لیا جاتا ہے۔ ترقیاتی منصوبہ بندی میں اکثریت کی ضروریات کو مدِنظر رکھنا لازمی ہوتا ہے۔ اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اکثریت کم آمدن اور درمیانہ آمدن والے طبقوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ اکثریت غیررسمی آبادیوں میں مقیم ہوتی ہے۔ غریب اور نادار آبادی کو شہر سی باہر دھکیلنے سے عدم مساوات، معاشی زیاں اور سماجی تصادم جنم لیتا ہے۔

شہری منصوبہ بندی میں ثقافتی اثاثے اور ورثے کا تحفظ بھی لازمی ہوتا ہے۔ ایسا کرنے سے اس علاقے کی سماجی، سیاسی اور علاقائی شناخت اور تاریخ کو محفوظ کیا جاتا ہے۔ ایسا کرنے سے معاشرے میں موجود نسلی اور طبقاتی اونچ نیچ کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن محسوس ہوتا ہے کہ کراچی شہر کی منصوبہ بندی اور ترقیاتی منصوبوں میں ان اصولوں کا خیال نہیں رکھا گیا۔ اسی وجہ سے کراچی میں ماحولیاتی، معاشرتی، اور معاشی صورت حال مسلسل بدتر ہوتی جا رہی ہے۔

یہاں سے تعمیرات کے لیے دریاؤں اور چشموں کی تہہ سے ریت اور بجری اس حد تک نکالی گئی ہے کہ اب سیلابی پانی پر قابو پانا ممکن نہیں رہا۔ کراچی شہر میں سبزاہ زار مفقود ہو چکے ہیں۔ درختوں اور ندی نالوں کا صفایا ہو چکا ہے۔ اب یہاں نہ قدرتی نباتات ہیں اور نہ جنگلی حیاتیات۔ آبی حیات ناپید ہوتی جا رہی ہے اور سمندری حیاتیات کی آلودگی ماحولیاتی بیماریوں کا باعث بن رہی ہیں۔

کراچی کے بنیادی مثائل میں انسانی شماریات (ڈیموگرافی)، روزگار، رہائشی ضروریات کی عدم فراہمی، گندے پانی کی نکاسی، پینے کے پانی کے مسائل، سالڈ ویسٹ، آمدورفت، نقل و حمل، تعمیر شدہ ورثہ، اجتماعی مقامات کا فقدان، شور اور فضائی آلودگی، صحت، تعلیم، ثقافت، اور شہریوں اور مقامی اداروں کا عدم تعاون شامل ہیں۔

ماضی میں کراچی میں بہت سے منصوبے پیش کیے گئے لیکن ایسے منصوبے مفادِعامہ میں نہ ہونے کے باعث تکمیل سے پہلے ہی تحلیل ہوگئے۔ ہمارے منصوبہ ساز اداروں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ منصوبہ بندی بنیادی طور پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کا عمل ہے۔ ہمیں منصوبہ سازی کرتے وقت عام لوگوں کی بنیادی ضروریات کو سامنے رکھنا ہوگا۔

کراچی کی بھیڑ بھاڑ میں ایک عنصر آئل ٹینکرز کا بھی ہے۔ اس ضمن میں اگر ایک پائپ لائن کراچی پورٹ سے نیشنل ہائی وے تک بچھا دی جائے اور شہر سے دور آئل ٹرمنل بنا دیے جائیں تو ان گنت ٹینکروں کی شہر خطرناک آمد رفت بند ہوجائے گی اور شہریوں میں تحفظ کا احساس بڑھے گا۔ کراچی کا بیشتر ثقافتی ورثہ مسمار ہو چکا ہے اور اس کی جگہ گوداموں نے لے لی ہے۔

شہر کے وسط میں بڑی بڑی دھان منڈیاں یا غلّہ منڈیاں لگی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ کیمیکل مارکیٹ، دھات اور کپڑے کی بازار ہیں جس سے ماحولیاتی آلودگی اور سانس کے امراض جنم لیتے ہیں اور کیمیکل مارکیٹ میں آگ لگنے کا خطرہ بھی لاحق رہتا ہے جو کہ شہریوں کی پریشانی کا ایک بڑا سبب ہے۔ کراچی اپنی تفریح گاہوں سے محروم ہوگیا ہے جن کی کشادہ باہیں معاشرے کے ہر فرد اور طبقے کے لیے کھلی رہتی تھیں۔

ماضی میں ہونے والی کوتاہیوں سے گریز اس طرح ممکن ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں سیاسی اور انتظامی فیصلوں سے قبل ان منصوبوں پر ماہرین کے درمیاں مشاورت کے عمل کو یقینی بنایا جائے۔ اس ضمن میں منصوبوں پر علمی درس گاہوں، پیشہ ور ماہرین اور شہریوں سے تجاویز لی جائیں تاکہ ترقیاتی حکمت عملی کو حقیقت پسندانہ، زمینی حقائق پر مبنی اور موئثر بنایا جا سکے۔
مزیدخبریں