تفصیلات کے مطابق خاتون پروفیسر مہوش محسنین فاطمہ نے ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز کی کرپشن بے نقاب کرنے کے لئے وزیراعظم پورٹل پر درخواست دی، بجائے اس کے کہ حکومت ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز کے خلاف شکایت پر کاروائی کرتی، درخواست گزار خاتون پروفیسر کو پرنسپل کے عہدہ سے ہٹادیا گیا اور دس دن بعد بغیر کسی الزام اور انکوائری کے محکمہ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے انہیں لاہور رپورٹ کرنے کا حکم نامہ صادر کر دیا گیا۔
میانوالی کے علاقہ عیسی خیل کے گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج کی پرنسپل مہوش محسنین فاطمہ جنہوں نے ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز میانوالی اور بعد ازاں انچارج ڈائریکٹر پبلک انسٹرکشن پنجاب جناب عاشق حسین کے علم میں یہ بات لانے کی کوشش کی کہ ان سے قبل سابق ڈی ڈی او پرنسپل ردا خان کے دور میں پرانی بلڈنگ کو گرا کر اس سے نکلنے والے سریا جس کی مالیت تقریباً 158000روپےبنتی ہے کو بیچا اور رقم ہڑپ کرلی کسی ریکارڈ میں اس کو درج نہیں، ڈپٹی ڈائریکٹر کیونکہ ان کے ساتھ ملے ہوئے تھے انہوں نے بجائے کوئی ایکشن لینے کے الٹا ڈائریکٹر پبلک انسٹرکشن پنجاب کو الٹی پٹی پڑھ دی کہ مہوش محسنین فاطمہ نے ردا خان سے بد سلوکی کی ہے اس کے خلاف کاروائی کی جائے ان دونوں نے فیصلہ کر کے مہوش محسنین کو عہدے سے ہٹا دیا۔
دوسری جانب پنجاب پروفیسر اینڈ لیکچرر ایسوسی ایشن سرگودھا ڈویژن نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ مہوش محسنین فاطمہ کے ساتھ کھڑی ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ کرپٹ ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز میاں محمد ساجد شاہ کی پشت پناہی چھوڑ کر انہیں عہدے سے ہٹایا جائے اور مہوش محسنین فاطمہ کو دوبارہ گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج برائے خواتین عیسیٰ خیل ضلع میانوالی کا پرنسپل تعینات کیا جائے۔