سابق صدر، وزیراعظم، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر پر آرٹیکل 6 لگایا جاسکتا ہے، جسٹس مظہر عالم کا اضافی نوٹ

07:05 AM, 14 Jul, 2022

نیا دور
سپریم کورٹ نے ایک تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے جس میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے والے قومی اسمبلی کے اسپیکر کے 3 اپریل کو متنازع فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے اپنے فیصلے کی وجوہات کی وضاحت کی گئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے لکھے گئے فیصلے میں چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو مسترد کر کے قاسم سوری نے بادی النظر اپنی آئینی ذمہ داری کی خلاف ورزی کی، انہوں نے کہا کہ 3 اپریل کا فیصلہ آرٹیکل 69(1) کے تحت پارلیمنٹ کی داخلی کارروائی کے تحفظ کے لیے کوالیفائی کرنے میں ناکام رہا کیونکہ یہ اس کے بجائے قومی اسمبلی میں ووٹ کا نتیجہ نہیں تھا، یہ یکطرفہ فیصلہ تھا۔

جسٹس بندیال نے مشاہدہ کیا کہ ڈپٹی اسپیکر کے متنازع اقدام نے واقعات کا ایک سلسلہ شروع کیا جس کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ اس نے اس وقت کے وزیر اعظم کو اسمبلی کی طرف سے ووٹ کے بغیر تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے آئینی طور پر منافی نتائج کا دعویٰ کرنے کی اجازت دی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ عدالت کی اولین ترجیح آئینی نظم کو برقرار رکھنا ہے جو صرف اسمبلی کی بحالی کی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے عمران خان کے خلاف تحریک خارج کرنے کے لیے قاسم سوری کی جانب سے استعمال کیے گئے سائفر کا حوالہ دیتے ہوئے وضاحت کی کہ سائفر کا متن عدالت عظمیٰ کو نہیں دکھایا گیا حالانکہ اس کے مندرجات کو ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کی حمایت میں جزوی طور پر تفصیلی وجوہات میں ظاہر کیا گیا تھا۔

2 اپریل کے کابینہ کے فیصلے کے علاوہ تفصیلی وجوہات میں اپوزیشن اور غیر ملکی ریاست کے درمیان مبینہ ملی بھگت کو ثابت کرنے کے لیے انکوائری کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ حقائق کی اس طرح کی انکوائری یا تو وفاقی حکومت کی طرف سے 2017 کے ایکٹ کے تحت بنائے گئے کمیشن یا پارلیمنٹ کے کسی ایکٹ یا آرڈیننس کے تحت بنائے گئے خصوصی کمیشن کے ذریعے کی جا سکتی ہے۔

پی ٹی آئی کی استدعا کہ سپریم کورٹ کو قومی سلامتی کے دفاع اور خودمختاری کی خلاف ورزی کے الزام پر ازخود نوٹس لینا چاہیے، اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

مزید براں، نوٹس داخل کرنے والے اپوزیشن ارکان کو 28 مارچ کو اس وقت کے وزیر اعظم کے خلاف تحریک پیش کرنے کی اجازت دی گئی تھی، جس نے اس تحریک پر آرٹیکل 95(2) کے تحت ووٹ دینے کے آئینی حق اور ذمہ داری کو واضح کیا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ اس حق/ذمہ داری کو اسمبلی کے فلور پر ووٹ کے علاوہ شکست یا کم نہیں کیا جا سکتا چونکہ ڈپٹی اسپیکر کے حکم نے یکطرفہ طور پر آئین کی جانب سے دیے گئے ووٹ کے حق سے انکار کیا، اس لیے آرٹیکل 69(1) کے تحت کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔

اسی دوران 13 جولائی کو ریٹائر ہونے والے جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل نے اپنے اضافی نوٹ میں کہا کہ اختیارات کا استعمال ایک مقدس امانت ہے جس کی صدر، اس وقت کے وزیراعظم، اس وقت کے اسپیکر، اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر اور اس وقت کے وزیر قانون نے خلاف ورزی کی۔

جسٹس مظہر عالم خان نے مشورہ دیا کہ کیا یہ کارروائیاں آئین کے آرٹیکل 6 (سنگین غداری) کو بھی اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں، پارلیمنٹیرینز کو اس بات پر غور کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے کہ کیا وہ ایسے غیر آئینی اقدامات کے لیے دروازے کھلے چھوڑ دیں یا مستقبل میں اس طرح کی گندگی کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کریں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے اضافی نوٹ میں کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی کارروائی جانبدارانہ تھی جس کی بنیاد پر اگر نئے انتخابات کرانے کی اجازت دی جاتی ہے تو یہ کسی اتھارٹی کو اختیارات کے ناجائز استعمال کا لائسنس دینے کے مترادف ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ ملک پہلے ہی غیر آئینی قوتوں کے ہاتھوں نظریہ ضرورت کے غلط استعمال کا تجربہ کر چکا ہے جسے عدالت عظمیٰ نے جائز قرار دیا لیکن اس کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ نظریہ ضرورت کے غلط استعمال کی وجہ سے جمہوریت کو بہت نقصان پہنچا، عدالتوں کو ہر اس عمل کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے جو آئین اور جمہوری اصولوں کے منافی ہو۔
مزیدخبریں