اگرچہ تیس سال تک معیشت کو چُوس کر عوام کے لئے مکھی چُوس نظام کی منتقلی کا کریڈٹ دھوم دھام سے اسی خاندان کی سر جاتا ہے لیکن تامل جنگجوئوں کا صفایا بھی بھائی صاحبوں کے کریڈٹ میں منتقل ہو چکا ہے۔
پھر نہ جانے کب اور کیسے سری لنکا پر آفت آن پڑی اور ملکی معیشت صفر پر آتی چلی گئی۔ معاشی بحران میں بھارت اور چین جیسے ہمسایہ ممالک کی سرمایہ کاری بھی سری لنکن جنتا کی کمر سے مشکلات کے بوجھ کو ہلکا کرنے میں ناکام رہی۔
ویسے اگر کرونا وبا، سری لنکا میں معاشی وبا نہ بن جاتی تو فرنٹ لائن ڈاکٹرز جسے آپ جنتا یا مظاہرین بھی کہہ سکتے ہیں میدان میں نہیں آتے؟
دیکھیے جناب! معاش تھی پہلے بھی کمزور۔ پھر کرونا کی لات پڑی تو بے جان نکلی۔ آہستہ آہستہ متوسط اور نچلے طبقے کیلئے تین وقت کی روٹی ایک خواب بن گئی۔ اس معاشی بحران کے حل کی کھوج شروع ہوئی تو دنیا نے کچھ عجیب، نت نئے فارمولے سڑکوں، محلات میں دیکھے۔ قومی پرچم لہراتے محّبِ وطن جوش وخروش سے باری باری موروثی سیاست اور کرپشن زدہ نظام کی پٹائی کرنے میدان میں نکل آئے۔
پہلے پہل بڑے راجا پکشے جی نے حکومت بچاؤ فارمولے کے تحت چھوٹے فرمانبرداروں جس میں وزیراعظم مہندا راجا پکشے، وزیر خزانہ باسل راجا پکشے اور وزیر دفاع چمل پکشے قربان کر دیے۔ لیکن جنتا پھر بھی صدر کی دم اور طاقت کے پیچھے پڑی رہی۔
پھر اقتدار کی پرامن منتقلی جیسے آئیڈیاز آئے اور مخلوط حکومت کا اعلان ہوا۔ لیکن نہ جانے کیوں مارکس، فینن اور لینن کی فلسفے کو اتنی جلد چاٹنے والی جنتا نے صدر کی شامت کے علاوہ اور کوئی آئیڈیا کو نہیں اپنایا۔
سو صدر صاحب بحری فوج کی مدد سے ایوانِ صدر اور نجی رہائشی مکان سے بحفاظت نکل آئے اور جنتا ایوانِ صدر کے بیک وقت ہزاروں صدور بنے۔ بجائے ایوانِ صدر کے سیاح بنتے۔
ایوان صدر میں گھنسے والی عوام کی تو جیسے موجیں لگ گئیں۔ کوئی سوئمنگ پول میں نہانے کے مزے لیتا پایا گیا تو کوئی درازوں کی صفایا کرتا رہا اور جو ہاتھ آیا سمیٹتا رہا جبکہ کوئی صدر صاحب کی ایمرجنسی آؤٹنگ سین کی وجہ سے بچی کچھی رقوم کے اعدادوشمار دنیا کو بتاتا رہا۔
اگر ایمرجنسی اُڑان کی وجہ سے صدر اتنی رقوم چھوڑ گئے تو پکشے خاندان کے انڈر گراؤنڈ بینک کی مالیت کا اندازہ خود لگا لیا کریں۔ راجا پکشے نے اقتدار کی ہوس میں اپنے مخالفین کو تشدد کا نشانہ بنایا، بے بنیاد الزام تراشیاں کیں، مخالفین کی آوازوں کو دبایا۔
لیکن تشدد کی تاریخ ان کی نظروں کے سامنے، جھپٹ کر گری اور پھر پلٹ کر وار کرتی گئی۔ مثال کے طور پر اقتدار کے لئے پکشے صاحب تشدد کرواتے تھے اور اب جنتا نے انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے پر تشدد راستہ اپنایا۔ پکشے صاحب کی طرح جنتا بھی کامیاب ہوئی۔
جنتا جب کامیاب ہوئی تو میوزک کی آواز آئی۔ دیکھتے دیکھتے ہرسو گانے بجنے لگے۔ نعرے بازی اور آتش بازی ہوئی اور سب سے بڑھ کر جنتا کی چہروں پر تبدیلی کی خوشی کا سماں دیکھنے کو ملا۔ دنیا کی اِچھا ہے کہ لنکن واسیوں کی قربانیوں کی بدولت یہی چہرے صدا خوش رہیں پر سَترک رہیں۔ جنتا کی صاحبِ تخت و تاج کی پھرتیوں کا احوال تمام ہوا۔