نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی سمت درست ہے۔ اس میں ایک بات صاف طور پر کئی گئی ہے کہ جس طرح تحریک عدم اعتماد کے ووٹ کو روکا گیا یہ آئین کے ساتھ فراڈ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جنہوں نے آئین کیساتھ فراڈ کیا ہے، یہ فیصلہ ان لوگوں کو بڑی مشکل میں ڈال سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلے سے واضح کر دیا ہے کہ پارلیمان میں اکثریت کو اقلیت یرغمال نہیں بنا سکتی اور آئندہ بنائے گی بھی نہیں، یہ فیصلہ خوش آئند ہے کیونکہ اکثریت عدم اعتماد کے حق میں تھی۔
پروگرام میں اس موضوع پر مزید اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں تو اس چیز کیخلاف ہوں کہ کسی کو سزائے موت دے دی جائے۔ آئین کے ساتھ غداری کی وجہ سے آپ ان کا منہ کالا کرکے عوام کے سامنے بھی کھڑا کر دیں تو یہ بھی بہت بڑی سزا ہوگی۔
عرفان قادر نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کا بھی سیاسی نکتہ نظر ہے۔ وہ بھی ووٹ ڈالنے جاتے ہیں۔ ان کی بھی پسند اور ناپسند ہے۔ سیاست میں یہ بھی فیکٹ ہے کہ کئی بار سیاستدانوں نے اتنی لڑائی کی کہ ان کو درمیان میں آنا پڑا۔
مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 6 صرف فوجی آمروں کیلئے نہیں، اگر کوئی سویلین کوئی آئین توڑتا ہے تو اس پر آرٹیکل 6 لگنا چاہیے۔ پاکستان میں آئین ٹوٹا ہے اور آئین شکنی کی گئی ہے۔
مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا جو اکثریتی فیصلہ آیا ہے اس میں یہ کہیں بھی نہیں کہا گیا کہ آرٹیکل 6 یا غداری کا مقدمہ بنایا جائے۔ ڈپٹی سپیکر، سپیکر، صدر یا سابق وزیراعظم کے خلاف قانونی طور پر سپریم کورٹ نے آرٹیکل 6 لگانے کا نہیں کہا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان 5 ججوں نے یہ تو نہیں کہا کہ یہ سنگین غداری کے مترادف ہے مگر یہ کہہ دیا ہے کہ آئین میں جو لکھا ہے حکومت اس پر عمل درآمد کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان اور فواد چودھری جیسے سیاستدانوں نے یہ کبھی تسلیم ہی نہیں کیا کہ آئین شکنی پر غداری کا مقدمہ ہونا چاہیے۔ فواد چودھری نے تو اپنے سیاسی کرئیر کا آغاز ہی جنرل مشرف جیسے فوجی آمر کے ساتھ مل کر کیا اور عمران خان ان کے پولنگ ایجنٹ رہے۔