لیکن وہ کیا ہے کہ گھر کی بات گھر ہی میں رہنے چاہیے۔ ملک میں جو عدم برداشت کی فضا ہے اس میں کوئی کسی کی بات سننے کا روادار نہیں۔ پچھلے دنوں جو بھی سیاسی مضامین لکھے، ان پر اختلافی رائے رکھنے والے دوستوں سے خاصی کھری کھری سنیں۔ باقی تنقید کو تو ہم سر پر سوار نہیں کرتے لیکن دوستیاں تو اہم ہیں صاحب۔ سوچا کہ اب بس موسم اور آلو کے بھاؤ پر ہی اظہار خیال کریں گے۔ یاریاں بچائیں گے۔
خیر چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔ اب پھر آپ کی مجلس میں حاضر ہیں۔ لیکن اب کی بار بات ذرا مختلف ہے۔ کسی ایک پارٹی کے بارے میں نہیں بلکہ سیاسی کلچر اور ہمارے عمومی رویوں پر بات ہو گی۔ انتخابی مہم زوروں پر ہے اور مزاج بھی گرما گرم ہیں۔
کیا عمران خان کی بیگم محض اس لئے تضحیک کا نشانہ کہ وہ عمران کی اہلیہ ہیں؟
ہمارے سب قارئین اس بات سے بخوبی آشنا ہیں کہ ہم عمران خان صاحب کے بڑے کڑے ناقد ہیں۔ اسی نکتہ چینی کے پیچھے بہت سے دوستوں کو ناراض بھی کر چکے ہیں۔ لیکن آج بات اور ہے۔ آج کل خان صاحب کے عمرے کی تصاویر کا بہت چرچا ہے۔ کبھی ان کے چارٹرڈ طیارے میں جانے کی بات ہوتی ہے تو کبھی عبادت کو تصنع سے تشبیہہ دی جاتی ہے کہ تصاویر پر بہت زور ہے۔ ان کے ساتھ ان کی نئی اہلیہ بھی تھیں جن کا رخ زیبا ابھی تک کھل کر کیمرا کے سامنے نہیں آیا۔ خاتون شرعی پردہ کیے ہوئے تھیں اور سر تا پا سفید پیرہن میں ملبوس۔ ہاتھوں پر تسبیح لپیٹے تھیں۔ ہماری متوقع خاتون اول کا چہرہ بس تخیل میں ہی دیکھا جا سکتا تھا۔
پردے پر اعتراض کا مطلب یہ نہیں کہ ان کو 'جادوگرنی' جیسے القاب سے نوازا جائے
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت کو ہی عزت بے عزتی کا معیار جانا جاتا ہے۔ کسی کو نیچا دکھانا ہو تو فوراً اس کے گھر کی عورتوں کو نشانہ بنا لیا جاتا ہے۔ ہمارا خان صاحب سے اختلاف اپنی جگہ لیکن ان کی اہلیہ کے لئے غلط زبان کا استعمال جو مخالف پارٹی کے کچھ نادان لوگوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر کیا گیا وہ کسی صورت بھی قابل قبول نہیں۔ باوجود اس کے کہ ہم خود بھی پردے کے کوئی خاص حامی نہیں لیکن ہمیں یہ حق بالکل حاصل نہیں کہ ان کے پردے کی بنا پر ان کو تضحیک کا نشانہ بنائیں۔ ان کو جادوگرنی اور دیگر رقیق القابات سے نوازیں۔ امید ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر نہیں ہوں گی۔
اس فولادی عورت کو اس قدر ذہنی اذیت دی گئی کہ برداشت اسی کا خاصہ تھی
ویسے تو عورتوں کو اس میدان میں گھسیٹنے کی روایت پرانی ہے۔ اجی ہماری تو گالیاں بھی ماں بہن سے ہی تعلق رکھتی ہیں۔ نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کی زندگی کو جس طرح صبح شام سوشل میڈیا پر رگیدا جاتا ہے کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ان کی شادی کو لے کر پورے کے پورے ٹی وی پروگرام کر دیے جاتے ہیں۔ سیاسی دلائل کو ایک طرف رکھ کر ذکر صرف ان کی شادی کا ہوتا ہے۔ مرحومہ بینظیر بھٹو کی جس بے شرمی سے کردار کشی کی گئی اس پر ابھی بھی سر جھک جاتا ہے۔ ہیلی کاپٹر تھا یا جہاز، ہم نہیں جانتے لیکن ہوا سے پمفلٹ بانٹے گئے۔ اس فولادی عورت کو اس قدر ذہنی اذیت دی گئی کہ برداشت اسی کا خاصہ تھی۔
کیا ان خواتین کا قصور یہی ہے کہ ان کا تعلق سیاسی گھرانوں سے ہے؟
کسی کی بھی بےعزتی کرنا مقصود ہو تو اس کے گھر کی عورت پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے۔ اسے تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کیا ان خواتین کا قصور یہی ہے کہ ان کا تعلق سیاسی گھرانوں سے ہے؟ کیا ان کا قصور یہی ہے کہ یہ گھبرا کر گھر نہیں بیٹھیں؟ مخالفت اپنی جگہ لیکن ہمارے معاشرے سے تہذیب اور شائستگی عنقا کیوں ہوتی جا رہی ہے؟ کیا اختلاف تہذیب کے دائرے میں ممکن نہیں؟ اس کے لئے زبان کی غلاظت شرط اول کیوں ہے؟ سوشل میڈیا نے جہاں سب کو آواز دی ہے وہاں یہ بے ہنگم شور مچانے کا موقع بھی فراہم کر دیا ہے۔ جب جی چاہے کسی کو بھی ماں بہن کی گالی دیجیے۔ اپنے کی بورڈ کی طاقت سے کسی کی بھی عزت اچھال دیجیے۔
اس حمام میں سب ننگے ہیں اور ستر پوشی کی فی الحال کوئی صورت بھی نہیں نظر آتی
ہمارا گلہ کسی ایک فرد یا گروہ سے نہیں۔ کسی ایک پارٹی کو کیا کہنا۔ یہ تو ایک پورا کلچر ہے۔ یہ عفریت ہماری موجودہ اور آنے والی نسلوں کو نگلنے کے درپے ہے۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں اور ستر پوشی کی فی الحال کوئی صورت بھی نہیں نظر آتی۔ رام کی گنگا یونہی میلی رہے گی۔ تف افسوس!
لیکن کیا یونہی ہاتھ پر ہاتھ دھڑے بیٹھے رہیں؟ یہ معاشرہ جو ابھی بھی انحطاط پذیر ہے اسے مزید تنزلی کی طرف گھسٹنےدیں؟ ہم سب کو اپنی ذمے داری سمجھنی ہوگی۔ اگر آپ ایک گھر بیٹھی ماں ہیں تو آپ کی ذمے داری بھی اتنی ہی ہے جتنی ہم صحافیوں کی، جن کے لفظ پوری دنیا میں پڑھے جاتے ہیں۔ تبدیلی گھر سے لانی ہو گی۔ اپنی نئی نسلوں کو نئے نہیں پرانے پاکستان کی طرف لے کر جانا ہو گا جہاں وضع داری دشمنی پر حاوی تھی۔
یہ کچھ ایسا مشکل بھی نہیں۔ آپ حامی بھریں تو مل کر ہاتھ بڑھائیں؟