ویسے تو یہ ستر سال کی کہانی ہے تاہم پاکستانی یوتھ کی وہ نسل جو افغان جنگ کے دوران یا فورا بعد پیدا ہوئی انکے لیئے امریکا کا ایک عمومی تعارف ابہام سے لبریز ہے۔ اس نسل کا ابتدائی بچپن تو امریکا کا جو یار ہے وہ غدار ہے اور امریکا کاجال دجال دجال کے نعروں میں گزار لیکن پھر اچانک سے انہیں مشرفی دور میں بتایا گیا کہ نہیں نہیں اب امریکا سے جس کو پیار ہے وہ ہی پاکستان کا یار ہے۔ لیکن تب بھی کہیں کہیں سے، کسی مذہبی اکٹھ سے پرانے نعرے بھی سنائی پڑتے لیکن ساتھ ہی یہ سنائی دیتا کہ یہ تو شدت پسند اسلام اور دہشتگردوں سے دوستی کی بات ہے۔ اس دوران مشرفی قیادت میں پاک فوج پر طالبان اور امریکا سے ایک وقت پر تعلقات کا الزام لگا۔ تو اسکے رد میں بھی بہت سے بیانیئے تشکیل دیئے گئے۔ یوں اس ابہام میں مزید اضافہ ہوگیا۔ زرداری دور میں بھی یہ ابہام جاری رہا۔ کہیں سازش کی بو سے اٹے میمو گیٹ سکینڈل کی باز گشت سامنے آئی تو لگا کہ حکومت تو امریکا پر اتنی مہربان ہے تاہم سلالہ پر لگا کہ اس سے بری امریکا مخالف حکومت ہو ہی کون سکتی ہے؟ اسامہ کا واقعہ علیحدہ گنا جائے۔ بہرحال پھر ریاست و حکومت پاکستان کا نیا پیار چین سے شروع ہوا جو سی پیک کے دھمکاے دار اعلانات اور ثمرات کے بعد اب وہ بھی بیک برنر پر چلا گیا اور پھر سے امریکی اڈوں کے بیوپار اور پیسوں کی جھنکار کی باتیں چل نکلی ہیں۔ ایسے میں پاکستان کا دانشور طبقہ اس وقت امریکا پاکستان میں تعلقات کی تجدید نو کا وزن کر رہے ہیں۔ ایسے میں ملک کے باخبر صحافی انصار عباسی نے امریکا کی حالیہ کوششوں کو پاکستان کے خلاف ایک سازش ہے۔ اپنے کالم میں وہ کہتے ہیں کہ اسکی البتہ یہ خواہش ضرور ہوگی کہ پاکستان کے لئے مشکلات بڑھیں اور سب سے بڑی کامیابی امریکہ کے لئے یہ ہو گی کہ پاکستان امریکہ کو اڈے (Air Bases) فراہم کر دے۔ 9/11کے بعد پاکستان کو نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا درجہ دے کر افغانستان پر حملہ کیا لیکن اصل میں افغانستان بہانہ جبکہ پاکستان نشانہ تھا جس کے اندر دہشت گردی کو دھکیلا گیا، دہشت گردوں کو افغانستان میں مکمل سپورٹ دی گئی۔
یہ امریکی سازش جلد ہی پاکستان کی سمجھ میں آ گئی اور پھر پاکستان نے وہ کیا جو اُسے کرنا چاہئے تھا اور جس کا مقصد پاکستان مخالف سازش کو ناکام بنانا تھا۔ اگر امریکہ نے بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے ساتھ ڈبل گیم کی تو پاکستان نے بھی اس کو خوب جواب دیا جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ یاد رہے کہ سابق آرمی چیف جنرل پرویز کیانی نے اپنے دور میں اُس وقت کے امریکی صدر اوباما کو کئی صفحات پر مشتمل ایک نان پیپر (Non Paper) دیا تھا جس میں اس سازش کا واضح ذکر تھا کہ امریکہ پاکستان میں افراتفری پھیلانے کے ساتھ ساتھ اسلامی ملک کے نیو کلیئر پروگرام کو نشانہ بنانا چاہتا ہے۔ ہم نے امریکہ کے لئے جو کچھ کیا اُس کے بدلے میں ہمیں ہی بدامنی، دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کو خوب اندازہ ہے کہ اس وقت امریکہ کو ہوائی اڈے دینے کا مطلب پاکستان کو ایک بار پھر اُس بدامنی اور دہشت گردی کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہو گا جس سے ہم نے بہت قربانیوں کے بعد جان چھڑائی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستان امریکہ کی اس نئی سازش کا شکار نہیں ہو گا۔ مسلمانوں کے خلاف امریکی سازشوں سے تقریباً سب مسلمان ممالک واقف ہیں لیکن اس کا اظہار کرنا ہر کسی کے لئے ممکن نہیں۔
جماعت اسلامی کے رہنما ڈاکٹر فرید پراچہ نے حال ہی میں شائع ہونے والی اپنی خود نوشت ’’عمرِ رواں‘‘ میں 2020کے معاہدہ افغانستان جسے میں دراصل امریکہ کی اپنی شکست تسلیم کرنے کا معاہدہ قرار دیتا ہوں، کے حوالہ سے لکھا کہ اس سلسلہ میں قطر کا کردار تاریخی تھا۔ عرب ممالک کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ چاہتے وہ بھی وہی ہیں جو امت کی عمومی رائے اور پکار ہے لیکن وہ امریکہ کی مخالفت برداشت نہیں کر سکتے۔
9/11کے بعد جب امریکہ اور اُس کے چالیس اتحادی ممالک کی فوجیں افغانستان میں اتریں تو اُس دوران ایک عرب ملک کے اپنے دورے کا ذکر کرتے ہوئے پراچہ صاحب لکھتے ہیں کہ اُن کی وہاں کے حکمران خاندان کی ایک معزز شخصیت کے مشیر سیاسی امور سے ملاقات ہوئی جس میں عالمِ اسلام کی صورتحال پر تشویش کے جذبات ایک جیسے ہی تھے۔ عرب رہنما کے سیاسی مشیر کا حوالہ دیتے ہوے پھر لکھتے ہیں:
’’اُنہوں نے کہا کہ ہمارے عرب ممالک یہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر امریکہ کو افغانستان میں نہ روکا گیا تو اگلا ہدف پاکستان اور عالمِ اسلام کے چند دیگر موثر ممالک ہوں گے۔ اس اہم مقصد کے لئے عرب ممالک پاکستان کی بھرپور مالی مدد کر سکتے ہیں لیکن مخمصہ یہ ہے کہ کیا پرویز مشرف پر اعتماد کیا جا سکتا ہے اور کیا یہ اطلاع امریکہ تک تو نہیں پہنچ جائے گی؟ اس سلسلے میں اُنہوں نے میری رائے طلب کی۔ میں نے کہا آپ صرف پرویز مشرف تک محدود نہ رہیں۔ ہماری فوج محب وطن بھی ہے اور عالمِ اسلام کی خیر خواہ بھی۔ اس لئے آپ فوجی ذمہ داران کی ٹیم کے باقی افراد پر اعتماد کریں اور اس سلسلے میں مثبت پیش رفت کریں۔ کون سمجھ سکتا تھا کہ اس طمطراق سے افغانستان کو ملیا میٹ کرنے کے دعوے سے آئی ہوئی سپر پاور پھر امن مذاکرات کے لئے عرب ممالک بالخصوص قطر سے رابطہ کرے گی‘‘۔