ماہر تعلیم، سیاستدان اور ایم پی اے بشریٰ انجم بٹ کا خصوصی انٹرویو

11:47 AM, 14 Jun, 2022

اقصیٰ یونس
بشریٰ انجم بٹ ایک ماہر تعلیم ، سیاستدان اور انتہائی مہذب خاتون ہیں۔ سیاست میں آکر انہوں نے تعلیم پر جو کام کیا وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ ہمیں ان سے بات کرنے کا موقع ملا، آئیں اس ملاقات کا احوال آپ کے گوش گزار کرتے ہیں۔


بشریٰ انجم صاحبہ کا کہنا تھا کہ وہ لاہور میں پیدا ہوئیں اور وہیں ان کا بچپن گزرا ۔ پھر کنیڈ کالج ویمن یونیورسٹی سے انہوں نے انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور اسکے بعد مختلف یونیوسٹیز میں انہوں نے پڑھایا اور 2013 میں انہوں نے باقاعدہ سیاست میں شمولیت اختیار کی۔

اپنے بچپن کے خوبصورت دور کو یاد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ 6 بہنیں تھیں اس لئے انکے گھر کا ماحول بہت رونق والا تھا ۔جس میں بیٹیوں کی ہر اچھے کام پر حوصلہ افزائی کی جاتی تھی اور بچپن سے ملی گئی محبت سے انہیں زندگی میں خوداعتمادی پیدا ہوئی۔

اپنے خاندان کی روایات پہ بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کے خاندان میں مہمان نوازی پہ بڑا زور دیا جاتا ہے ۔ ان کے دادا اور انکے والد ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ دسترخوان ہمیشہ وسیع ہونا چاہیے ۔

https://twitter.com/bushraanjumbutt/status/1530421446354378752

سیاست پہ بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب وہ یونیورسٹی میں پڑھا رہی تھی تو ان کا کام تھیوریٹیکل تھا توانہیں ایک کمی یا خالی جگہ محسوس ہوتی تھی ۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری سیاست میں ٹیکنوکریٹس کی بہت کمی ہے ۔ اسی لئے میں نے سیاست کو صرف اس لئے چنا کہ میں اپنے حصے کی شمع جلا سکوں ۔ میں خود کو سیاستدان نہیں بلکہ قانون ساز (Legislator) کہتی ہوں اور میں نے اسی نظریے کے تحت سیاست میں حصہ لیا تھا کہ میں پالیسی بنانے میں اہم کردار ادا کر سکوں ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سٹینڈنگ کمیٹی فار ایجویشن کا حصہ رہی اور انہوں نے آٹھ سال صرف تعلیم پہ کام کیا جبکہ شہباز شریف کے دور میں انہوں نے تعلیمی نظام اور اصلاحات پہ کام کیا ۔

https://twitter.com/bushraanjumbutt/status/1536561559060762624

بشریٰ انجم بٹ کا مزید کہنا تھا کہ انہیں اس بات پہ فخر ہے کہ انہوں نے سماجی کارکن کی حیثیت سے عورتوں کے حقوق پر بہت کام کیا اوروہ اب بھی بہت سی این جی اوز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ابھی بھی ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی سٹینڈنگ کمیٹی فار ایجوکیشن کی ممبر ہیں۔

https://twitter.com/bushraanjumbutt/status/1534469431602163714

ان کا کہنا تھا کہ زندگی کے ہر مقام پر ایسے لمحات آتے ہیں جب زندگی بہت حد تک تبدیل ہو جاتی ہے۔ خواتین کیلئے ایک اہم موڑ شادی بھی ہوتی ہے اور ہر حالات میں خود کو ڈھال لینا خواتین کی ایک بہترین مہارت ہے ۔ شادی کے بعد دوسرے گھر میں جا کر انکے طریقوں کے مطابق خود کو مکمل ڈھال لیتی ہیں ۔ اسکے علاوہ لمز کو چھوڑ کر پنجاب اسمبلی میں آنا بھی ایک اہم موڑ تھا۔ اس میں بہت سی مشکلات بھی آئیں لیکن وہ مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھتی گئیں۔

اپنی زندگی کے قابل فخر اور پر مسرت لمحات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب پہلی بار انہوں نے اپنے بچے کو دیکھا تو وہ ان کی زندگی کا بہت خوبصورت لمحہ تھا پھر پنجاب اسمبلی میں جب حلف لیا تو وہ ان کی زندگی کا ایک قابل فخر لمحہ تھا ۔ کیونکہ وہ اپنے باپ کا نام اپنے نام کے ساتھ لگا کر اسمبلی میں کھڑی تھیں ۔

https://twitter.com/bushraanjumbutt/status/1534236967185022978

انہوں نے کہا کہ 'میں یہی چاہتی ہوں کہ میں ہمیشہ اپنے والد صاحب کے نام سے پہچانی جاؤں'۔

انہوں نے کہا کہ وہ جس دن بھی وہ کوئی اچھا کام کرتی ہیں انہیں لگتا ہے یہی انکی زندگی کا قابل فخر لمحہ ہے ۔

زندگی پہ بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ زندگی اللہ کی ایک نعمت ہے اور اللہ پہ مکمل توکل زندگی ہے ۔اور جو چیز آپ کے نصیب میں لکھ دی گئی ہے وہ آپ کو ضرور ملے گی۔آپ اس یقین کے ساتھ جب چلتے ہیں تو چیزیں بہت مثبت سمت میں چلنا شروع ہو جاتی ہیں ۔ اور ضروری نہیں ہے کہ آپ سیاست میں آکر سیاست ہی کریں ۔ کیونکہ سیاست میں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا بہت رواج ہے ۔

پاکستان کے مسائل پہ بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم لوگ شخصیت پرستی کی طرف آ گئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ کسی ایک پارٹی کی بات نہیں کرتی ۔ مگر میرے جیسے لوگ جو واقعی ہی ایک مثبت تبدیلی لانا چاہتے ہیں انہیں اس رویے سے بڑی تکلیف ہوتی ہے ۔ہم پاکستان کے مفاد کو پیچھے رکھ رہے ہیں ۔ہماری پہچان پاکستان ہے پاکستان ہے تو ہم ہیں ۔ہم قومی سطح پہ نہیں سوچ رہے البتہ ہم سیاست میں اتنا مگن ہیں کہ ملک کے اصلی مسائل جیسے تعلیم صحت بہت پیچھے رہ گئے ۔ہم سیاست میں اتنے مگن ہیں کہ کرونا کی وبا کے وقت جب سب کو مل بیٹھ کر کام کرنا چاہیے تھا تب بھی لوگوں نے سیاست کی۔
https://twitter.com/bushraanjumbutt/status/1533331161992265728

انہوں نے کہا کہ ہم ٹیلیوژن پروگرامز میں لیک آڈیوزاور اپنی اپنی سیاست پہ اتنا وقت ضائع کر تے ہیں مگر اسی وقت کو اگر ہم نچلی سطح کے مسائل حل کرنے میں لگائیں تو شاید اب سے کچھ دیر بعد پاکستان ایک بہتر مقام پر ہوگا ۔


سوشل میڈیا پہ بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ففتھ جنریشن وار کے وقت سوشل میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر انہیں لگتا ہے پاکستان کو سوشل میڈیا کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا ہے۔

ان کا ماننا تھا کہ سوشل میڈیا پہ لوگوں میں بدتمیزی ، بدتہذینی اور عدم برداشت کا رجحان بہت بڑھ رہا ہے اور غیر مہذب اور غیر شائستہ الفاظ سوشل میڈیا کی زینت بنتے ہیں ۔ہماری اخلاقیات ، بڑے چھوٹے کی تمیز وغیرہ کو سوشل میڈیا نے سب ختم کر دیا۔

نوجوان نسل کو پیغام دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں ہمیشہ ایک ہی پیغام دیتی ہوں کہ ایک قوم کی طرح رہنا شروع کریں ۔ ایک باشعور شہری ہونے کی حثیت سے ملک کی جو ذمہ داری آپ پر عائد ہے اسے نبھائیں۔ شخصیت پرستی سے نکل کر فقط ملک کے مفاد کیلئے سوچنا شروع کریں ۔ پاکستان دو قومی نظریے پہ بنا تھا اس لئے اقلیتوں کے نظریات کا بھی احترام کریں اور حقیقی معنوں میں جمہوریت یہی ہے کہ آپ ایک دوسرے کے نظریات ، عقائد اور سوچ کا احترام کریں ۔تنقید برائے تنقید سے نکل کر تنقید برائے تعمیر پہ یقین رکھتے ہوئے اپنے حصے کی شمع جلاتے جائیں۔
مزیدخبریں