24 مئی کی رات کراچی کی ایک نجی ہائوسنگ سوسائٹی میں 18 سالہ جزلان فیصل نامی بچے کا معمولی بات پر گولی مار کر جارحانہ طریقے سے قتل کرنے کا واقعہ پیش آیا۔ رپورٹ کے مطابق کراچی پولیس نے جزلان کے چچا کی موجودگی میں قتل کا مقدمہ درج کر لیا تھا۔ اب تک تین میں سے دو ملزمان کو گرفتار کر لیے گئے ہیں اور تیسرے یعنی مرکزی ملزم عرفان کے والد فیض کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ تفتیشی افسرکے مطابق مرکزی ملزم عرفان اپنے والد کا اسلحہ لایا تھا اور اب اس کے ملک سے فرار ہونے کے انکشافات سامنے آ رہے ہیں۔
حادثہ کچھ اس طرح سے پیش آیا کہ 24 مئی کی رات مقتول جزلان اپنے دوست کی طرف بحریہ ٹائون میں اگلے مہینے ہونے والے آئی سی ایم اے کے امتحانات کی تیاری کرنے جا رہا تھا۔ جزلان کی دادی کا کہنا تھا کہ کچھ دنوں سے جزلان اور اس کے ساتھی انھی کی طرف اکٹھے پڑھائی کر رہے تھے تو اب ایک دن ان کے دوست کے گھر پڑھائی کرنے کا پروگرام بن گیا۔
مقتول کے چچا کے مطابق 24 مئی کی رات جزلان اپنے دوستوں کے ہمراہ بحریہ ٹاوٗن روانہ ہوا۔ راستے میں ایک موٹر سائیکل پر نوجوان ان کی گاڑی کے آگے سے تیز رفتاری سے اور خطرناک کرتب کرتا گزر رہا تھا، جس پر جزلان اور اس کے دوستوں نے اس کو منع کیا کہ تم خوامخواہ اس طرح بڑا نقصان کروا بیٹھو گے اور پولیس ہمیں قصوروار ٹھہرائے گی جس پر موٹر سائیکل پر سوار نوجوان جزلان اور اس کے دوستوں کے خون کا پیا سا ہوگیا اور اس نے شاہراہِ فیصل پر ہی اپنی موٹر سائیکل جزلان کی گاڑی کے آگے کھڑی کر دی اور فون لگانا شروع کر دیے۔
اس پر جزلان کے دوستوں نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور جب بحریہ ٹائون میں قائم آئفل ٹاور کے پاس پہنچے تو پیچھا کرنے والے تین نوجوانوں نے ان پر گولیاں چلا دیں۔ ایک گولی جزلان کے ساتھی شعمیر کے سر پر سے گزرتی ہوئی جزلان کے سر میں جا لگی۔
جزلان اور شعمیر کو بحریہ ٹائون کے مقامی ہسپتال میں لے جایا گیا لیکن حالت تشویشناک ہونے کی وجہ سے انہیں جناح ہسپتال منتقل کیا گیا، اور پھر آغا خان بھیج دیا گیا۔ شعمیر کی حالت پر قابو پا لیا گیا لیکن جزلان، گولی دماغ میں دھنس جانے کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جزلان کے والد کی حادثاتی موت کے بعد ان کی والدہ نے دوسری شادی کر لی تھی۔ جب جزلان 8 برس کا تھا تو تب سے ہی وہ اپنے دادا، دادی کے ساتھے رہ رہا تھا۔ جزلان کے دادا کا کہنا تھا ”ہم نے دو ماہ قبل ہی جزلان کی دھوم دھام سے 18 ویں سالگرہ منائی تھی اور پھر اس کا شناختی کارڈ بنوایا۔ یہ ایسا ہی ہے جسے چھوٹے سے پودے کی اگر آپ پرورش کریں، اس کی آبیاری کریں، اس کو گرم وسرد سے بچائیں، پھر وہ بڑا ہو جائے اور اس کو کوئی کاٹ لے۔ ایک بوڑھے کی جس طرح لاٹھی ہوتی ہے، جس عمر میں اس وقت میں ہوں میری لاٹھی تھا وہ، کسی نے میری لاٹھی توڑ دی، کتنا بڑا ظلم ہے“۔
نوجوانوں اور بچوں پر تشدد بہت دیر کا چلتا آرہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال جاوید اقبال ہے جس نے 100 بچوں کا قتل کیا تھا۔
اقبال کی ابتدائی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔ اگرچہ اس کے خلاف 1985 اور 1990 میں جنسی زیادتی کی شکایات درج کی گئی تھیں، لیکن اسے کبھی بھی کسی بھی الزام میں سزا نہیں دی گئی۔ جاوید اقبال نے چھ ماہ کے عرصے میں 100 قتل کا اعتراف کرنے کے بعد 1999 میں پاکستانی حکام کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔
اس کے اعترافی بیان کے مطابق اس نے 6 سے 16 سال کی عمر کے لڑکوں، جن میں سے زیادہ تر بھکاری اور گلی کے بچوں کو لاہور میں اپنے گھر لایا، جہاں اس نے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی، ان کا گلا دبا کر قتل کیا، ان کی لاشوں کے ٹکڑے کیے اور ان کے ٹکڑے تیزاب کے ایک برتن میں پھینک دیے۔
جاوید اقبال نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے جرائم پولیس کے خلاف انتقامی کارروائی کے طور پر کئے گئے تھے، جس نے، اس کے بقول، گرفتاری کے بعد اس پر حملہ کیا تھا۔ اس نے اپنے متاثرین کا تفصیلی ریکارڈ بنا رکھا تھا جس میں ان کے نام، عمر اور تصاویر شامل تھیں۔
اگرچہ بعد میں اس نے اپنے جرم سے انکار کیا۔ جاوید اقبال کو 100 بارسزائے موت سنائی گئی۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ اسے اسی زنجیر سے پھانسی دی جائے جس سے وہ اپنے متاثرین کا گلا گھونٹ کر مارتا تھا اور اس کے جسم کے 100 ٹکڑے کر کے تیزاب میں تحلیل کر دیا جائے۔ اس سے پہلے کہ پھانسی دی جائے، تاہم، اقبال اور ایک نوجوان ساتھی، جسے سزا بھی سنائی جا چکی تھی، جیل کی کوٹھریوں میں مردہ پائے گئے۔ اور ان کی موت کو سرکاری طور پر خودکشی قرار دیا گیا۔
پاکستان کی تاریخ میں بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ تشدد کے واقعات لاتعداد موجود ہیں جن میں سے ایک اور دل دہلا دینے والا واقعہ قصور کی 7 سالہ بچی تھی جس کو زیادتی کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ زینب قتل کیس 2018 میں رپورٹ ہوا تھا، جہاں دو سال کے عرصے میں ایک سیریل کلر، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناک کے نیچے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کرتا رہا تھا۔ قصور کے عوام مشتعل ہو کر احتجاج کرنے سڑکوں پر نکل آئے اور انصاف کا مطالبہ کرنے لگ گئے۔ تاہم پولیس نے مطالبات سننے کے بجائے اندھا دھن فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں دو افراد ہلاک ہوگئے۔
جنوری 2021 میں، پشاور کے علاقے شاہ پور میں ایک 16 سالہ لڑکے کو مبینہ طور پر 'مجرم' سے دوستی نہ کرنے پر قتل کر دیا گیا۔ گل رحمن، جس کی شناخت مقتول کے نام سے ہوئی ہے، چار روز قبل لاپتہ ہو گیا تھا۔ اس کے اہل خانہ نے شاہ پور تھانے میں شکایت درج کرائی تھی، اور یہ بھی انکشاف ہوا کہ مرکزی مجرم شیر اکبر بھی مقتول کے لاپتہ ہونے کے بعد سے لاپتہ ہے۔ پولیس نے اکبر کی لوکیشن اور اس کے موبائل فون سے ڈیٹا ٹریس کیا۔ پوچھ گچھ پر اس نے رحمان کو قتل کرنے اور پھر اس کی لاش کھیتوں میں پھینکنے کا اعتراف کیا۔ تاہم، ابتدائی پوسٹ مارٹم نے کسی بھی قسم کی زیادتی کی تصدیق نہیں کی۔ اے ایس پی چمکنی احمد زونیر چیمہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ رحمان ایک رکشہ ڈرائیور تھا جسے ابتدائی تفتیش کے مطابق اکبر سے دوستی نہ کرنے پر قتل کیا گیا۔
ساحل آرگنائزیشن کے مطابق 2021 میں پاکستان کے چاروں صوبوں سے بچوں سے زیادتی کے کل 3852 کیسز رپورٹ ہوئے۔ بشمول اسلام آباد، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ کل 3852 کیسز میں بچوں کے جنسی استحصال، اغوا کے کیسز، گمشدہ بچوں کے کیسز اور بچوں کی شادیوں کے کیسز شامل ہیں۔ اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ سال 2021 کے دوران روزانہ 10 سے زیادہ بچے زیادتی کا شکار ہوئے ہیں۔ سال 2020 کے مقابلے میں بچوں سے زیادتی کے واقعات میں 30 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ۔ صنفی تقسیم سے پتہ چلتا ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے کل رپورٹ ہونے والے کیسز میں سے 54 فیصد متاثرین لڑکیاں اور 46 فیصد لڑکے تھے۔
نعیم الرحمن نے اپنے ٹویٹ میں کہا ”جب تک حکومتیں قاتلوں کی سرپرستی کرینگی، جیلوں کی جگہ جعلی ہسپتال فراہم کرینگی، شاہ رخ جتوئی پیدا ہوتے رہینگے، وڈیروں اور طاقتوروں کے بچے کمزوروں کو گولیوں کا نشانہ بناتے رہینگے۔ بحریہ ٹائون میں قتل ہونے والے بچے جزلان فیصل کے قاتلوں کوفوری گرفتار کیا جائے۔“