صحافی اسد علی طور نے مارچ 2023 کی اپنی سابقہ رپورٹ کا اعادہ کیا جس میں بتایا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو ممکنہ طور پر جلد گرفتار کیا جا سکتا ہےجنہوں نے جون 2019 سے نومبر 2021 تک عمران خان کی حکومت کے دوران پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر خدمات انجام دیں۔
اسد طور نے کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض کو گرفتار کرنے کے فیصلے کے بارے میں ان کے دعوے کے بعد پاک فوج کے ریٹائرڈ جنرل کی کرپشن اور آمدن سے زائد اثاثوں کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) میں دائر کی جانے والی شکایت کے حوالے سے ایک خبر منظر عام پر آئی تھی۔
9 مئی کو پی ٹی آئی کے حملوں کا نشانہ بننے والے علاقوں کا حوالہ دیتے ہوئے صحافی نے کہا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے 9 مئی کے فسادات کے ذمہ دار نہ ہونے کے دعوے قابل فہم نہیں ہیں۔ یہ قابل یقین تب ہوتا جب یہ ہجوم صرف لاہور میں کنٹرول سے باہر ہو جاتا۔ لیکن ہجوم گوجرانوالہ کنٹونمنٹ میں، ملتان کنٹونمنٹ میں، فیصل آباد اور راولپنڈی میں آئی ایس آئی کے دفاتر، یہاں تک کہ جی ایچ کیو میں بھی قابو سے باہر ہو گیا۔ ہجوم نے صرف کنٹونمنٹ کے علاقوں کو ہی کیوں نشانہ بنایا؟ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے صرف فوجی تنصیبات کو کیوں نشانہ بنایا؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر عمران خان نے اپنی ہدایات سے آگاہ کیا تھا کہ اگر انہیں کچھ ہوا تو ان کے کارکنان اور حمایتیوں کو ہر شہر میں فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہجوم کو تمام مختلف شہروں میں ان مقامات کی طرف لے جایا گیا تھا اور پی ٹی آئی کو اندر سے کچھ یقین دہانیاں بھی ملی تھیں کہ اگر وہ فوجی مقامات اور کور کمانڈروں کی رہائش گاہوں اور جی ایچ کیو پر حملہ کریں، تو اس قدر افراتفری پھیلے گی کہ اندرونی بغاوت کے نتیجے میں فوج خود موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو ہٹا دے گی جو اس وقت سرکاری دورے پر بیرون ملک تھے۔
یقینی طور پر فوج کے اندر سے پی ٹی آئی کو اس قسم کی یقین دہانی کرائی گئی تھی اور ذرائع کے مطابق، غالباً لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید ہی تھے جنہوں نے ان کے لیے یہ یقین دہانی کرائی تھی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، سابق آئی ایس آئی سربراہ کی "خصوصی تربیت یافتہ" ٹیم 9 مئی کو پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ساتھ ملک بھر میں متعدد مقامات پر آتش زنی اور توڑ پھوڑ کا ارتکاب کر رہی تھی۔ چونکہ آتش زنی اور توڑ پھوڑ میں ملوث افراد زیر حراست ہیں اسی لیے پاکستان آرمی کے کسی بھی اعلیٰ افسر کے خلاف اب تک عوامی سطح پر مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔ یہ قیاس کیا جارہا ہے کہ 200 کے قریب پاک فوج کے اہلکار - کمیشنڈ افسران اور نان کمیشنڈ اہلکار، جو حاضر سروس اور ریٹائرڈ دونوں ہیں - فی الحال 9 مئی کے فسادات میں ان کے مشتبہ کردار کی وجہ سے کورٹ مارشل انکوائریوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
یہ بھی دعویٰ کیا جارہا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے ساتھ ساتھ لاہور کے سابق کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سلمان غنی بھی پاک فوج کے اعلیٰ فوجی کمانڈر کے طور پر اپنی سرکاری رہائش گاہ جناح ہاؤس کی حفاظت اور دفاع میں ناکامی پر زیر تفتیش ہیں۔
اپریل میں یہ اطلاعات زیرگردش تھیں کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض اپنے ادارے پاک فوج سے "معافی مانگنے" کے لیے عمران خان اور پی ٹی آئی سے دوری اختیار کر رہے تھے۔ تاہم، اب ایسا لگتا ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کی طرف سے ملی ٹیبلشمنٹ کے ساتھ "تعلقات ٹھیک کرنے" کی تمام کوششیں بے سود ثابت ہو ئی ہیں جس کا وہ خود گزشتہ سال کے اواخر تک حصہ تھے ۔
صحافی نے دعویٰ کیا کہ جب سے 9 مئی کو پاک فوج کے اندر بغاوت بھڑکانے کا منصوبہ ناکام ہوا، اور عمران خان کی جنرل عاصم منیر کو ہٹانے کی حکمت عملی ایک غلط فہمی اور خوش فہمی سے زیادہ کچھ نہیں نکلی، تب سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید اس مہلک اور غلط منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد میں شراکت دار تھے۔
اسد طور نے کہا کہ 9 مئی سے پہلے اور بعد میں کیا بدلا ہے؟ وہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے لیے کم ہوتی سوشل میڈیا سپورٹ، اور 9 مئی کے بعد سے سیاست دانوں کی طرف سے ان سے کنارہ کشی اختیار کی جارہی ہے۔کچھ پوشیدہ سہولتکاروں نے اپنے ہاتھ اٹھا لیے ہیں جنہوں نے اپریل 2022 اور مئی 2023 کے درمیان پی ٹی آئی کو برقرار اور متعلقہ رکھا ہوا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو اعلیٰ حکام نے مطلع کیا ہے کہ وہ چکوال میں اپنی رہائش گاہ سے باہر نہیں جا سکتے۔ وہ آزادانہ طور پر لوگوں سے ملاقات یا بات چیت نہیں کر سکتے اور انہیں اس وقت تک گھر پر ہی رہنا چاہیے جب تک کہ فوج کی اعلیٰ کمان کی جانب سے ان کے خلاف کارروائی کے معاملے میں فیصلہ نہیں کیا جاتا۔
اگر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا کورٹ مارشل کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو انہیں چکوال میں ان کی رہائش گاہ سے حراست میں لے کر جج ایڈووکیٹ جنرل (جے اے جی) برانچ کے حوالے کر دیا جائے گا. لیکن اگر وہ مجرم ثابت نہیں ہوئے تو وہ جیسا چاہیں ویسا کرنے کے لیے آزاد ہوں گے.
لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید اپنے گھر میں الگ ہیں۔ وہ کسی سے نہیں مل سکتے اور نہ ہی کوئی ان سے ملنے آ سکتا ہے، اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے اگلے حکم تک وہ کسی شادی یا جنازے میں شرکت بھی نہیں کر سکتے۔