بھیڑیے کی چونکہ نیت خراب تھی اور وہ اسے کوئی بہانہ بنا کر ہڑپ کرنا چاہتا تھا جب اس نے دیکھا کہ یہ بہانہ تو رائیگاں گیا تو وہ بولا کہ اچھا تم نے مجھے ایک برس قبل گالی دی تھی وہ تو تمہیں یاد ہو گی۔ اس پر وہ بچہ بولا، سرکار میری عمر تو صرف چھ مہینے ہے۔ اس پر وہ بھیڑیا بولا اچھا تو وہ پھر تمہارے کسی بزرگ نے مجھے گالی دی ہو گی جس کا خمیازہ اب تمہیں بھگتنا پڑے گا۔ اس کے بعد بھیڑیے نے بھیڑ کے بچے پر چھلانگ لگائی اور اسے مار کر کھا گیا۔
کچھ ایسے ہی حالات آج کل قاسم کے ابو یعنی پی ٹی آئی چیئرمین (چونکہ پاکستانی میڈیا پر ان کا نام لینے پر پابندی عائد ہے اس لیے میں بھی پابندی کا احترام کروں گا) کے ساتھ درپیش ہیں۔ ان کی حالت اس بھیڑ کے بچے جیسی ہے جسے طاقت ور مخالفین اس بھیڑیے کی طرح کوئی بہانہ بنا کر ختم کرنا چاہ رہے ہیں۔ اسی ضمن میں سانحہ 9 مئی کے بعد ان کی جماعت سے کئی رہنما جماعت کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔ اس کے بعد ایک اور جماعت ترین صاحب کی سربراہی میں استحکام پاکستان پارٹی کے نام سے تشکیل دے دی گئی ہے جس میں زیادہ تعداد انہی افراد کی ہے جو پی ٹی آئی کے بھگوڑے ہیں۔ اب یہ تو وقت اور عوام بتائیں گے کہ اس ہنگامی طور پر تیار کردہ جماعت کو بھی خاص پذیرائی ملتی ہے یا نہیں۔
سانحہ 9 مئی اور اس کے بعد جو کچھ بھی ملک میں ہوا اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ کوئی بھی محب وطن کبھی بھی اپنے اداروں پر حملہ نہیں کرتا۔ یہ کام شرپسندوں اور غداروں کا ہے۔ اس معاملے میں چیئرمین تحریک انصاف نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ جو بھی ذمہ داران ہیں انہیں سزا ملنی چاہئیے اور اس واقعہ کی شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں۔ اس کے بعد بھی یوں لگتا ہے کہ بھیڑیے کی طرح کوئی بہانہ بنا کر چیئرمین پر حملہ کر کے ہر لحاظ سے قابو کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
موجودہ حالات تک پہنچنے میں چیئرمین پی ٹی آئی کا اپنا بھی کافی کردار ہے۔ ان کئی عوامل میں سے چند کا ذکر کروں گا۔
چیئرمین تحریک انصاف کا اسمبلیوں میں بیٹھ کر موجودہ حکومت کو مشکل وقت دینے کے بجائے اسمبلیوں سے استعفے دینے کا فیصلہ غلط تھا۔
اسی طرح اپنی تقریروں میں اپنی حکومت گرانے کے معاملے میں امریکی سازش کا بیانیہ الاپا گیا، اس کے بعد وہ بیانیہ سائیڈ پر رکھ کر ملبہ سابق آرمی چیف اور اسٹیبلشمنٹ پر ڈال دیا گیا۔
جب وہ وزیر اعظم تھے اس وقت بھی اپنی تقریروں میں پاکستان کے مسائل پر گفتگو کرنے کے بجائے اکثر ان کا ہدف اپوزیشن کے رہنما ہوتے تھے۔ اس کی بڑی مثال ان کا دورہ امریکہ تھا جس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات سے قبل واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی عوام سے خطاب میں ان کا سارا دھیان اپوزیشن رہنماؤں کو سخت سزائیں دینے اور نواز شریف کو بغیر اے سی کے جیل میں رکھنے پر تھا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ایسی تقریروں کے بجائے انہیں عوامی مسائل پر گفتگو کرنی چاہئیے تھی کیونکہ وہ پورے ملک کے وزیر اعظم تھے۔
پھر انہوں نے تمام خیرخواہوں کی مخالفت کے باوجود پنجاب جیسا صوبہ نکمے شخص عثمان بزدار کے حوالے کر دیا۔ یہ وہی شخص ہے جس کی کرپشن کی تحقیقات ہونا ابھی باقی ہیں اور وہ فوری طور پر سابق وزیر اعظم کو الوداع کہہ چکا ہے۔
ایک دوست جو حساس ادارے میں اہم عہدے پر فائز ہیں انہوں نے بتایا کہ جب چیئرمین صاحب وزیر اعظم تھے تو ان سے درخواست کی گئی کہ سر آپ اپنی زبان پر ذرا قابو رکھا کریں کیونکہ ہر بات سرعام کہہ دینا بھی نقصان کا باعث ہوتا ہے مگر وزیر اعظم صاحب نہیں مانے۔ شاید اسی لیے سیانے کہتے ہیں کہ وہ سچ جس سے شر پھیلے یا زیادہ نقصان کا خطرہ ہو اس سے بچنا چاہئیے۔
اس سب کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ عوام کی اکثریت کو ہی یہ فیصلہ کرنے کا حق ہے کہ ان کا وزیر اعظم کون ہو کیونکہ جمہوری عمل کے لیے یہ سب ضروری ہے اور اس تناظر میں چیئرمین تحریک انصاف کا الیکشن کا مطالبہ آئینی اور جمہوری ہے۔
ان کی جماعت کو کھڈے لائن لگا کر یا اس جماعت کو توڑ کر نئی جماعتیں لانچ کر کے یقیناً جمہوریت کی کوئی خدمت نہیں ہو گی۔ جمہوریت کی خدمت اس میں ہو گی کہ آئین کے مطابق ملک بھر میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا جائے، 9 مئی کی توڑ پھوڑ میں جو لوگ ملوث ہیں انہیں عبرت کا نشان بنایا جائے اور تحریک انصاف کے جو گرفتار کارکن اور رہنما اس توڑ پھوڑ میں ملوث نہیں، ان پر دباؤ ڈالنے کے بجائے جمہوری رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو رہا کیا جائے۔
اگر چیئرمین تحریک انصاف خود کسی جرم میں ملوث نہیں تو انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے بجائے ان کے ساتھ حکومت اور دیگر اداروں کو مذاکرات کے دروازے کھلے رکھنے چاہئیں۔ چیئرمین کو بھی چاہئیے کہ جمہوری رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملکی مفاد میں لچک دکھائیں۔ اگر الیکشن ہو جاتے ہیں تو اس کے نتائج کو بھی کھلے دل سے تسلیم کرنا سیکھیں۔
کاش وطن عزیز میں ایسی جمہوری اقدار آئیں کہ ہارنے والا امیدوار جیتنے والے امیدوار کو کھلے دل سے مبارک باد دے کر اپنی ہار قبول کرے۔ کاش وطن عزیز میں تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں۔ اگر ہم خود کو جمہوری سمجھتے ہیں تو سیاسی انجینئیرنگ اور ہارس ٹریڈنگ کے بجائے سیاسی بحران کا حل مذاکرات اور آئین پر عمل کرتے ہوئے شفاف الیکشن کے انعقاد سے ہی ممکن ہے۔
اگر سیاسی بحران کا جلد حل نہ نکلا تو ملک میں معاشی بحران کے علاوہ ہم آپسی سیاسی اختلافات کے باعث ایک دوسرے سے نفرت میں بھی اضافے کا باعث بنیں گے۔