ایک روزہ جسمانی ریمانڈ ختم ہونے پر پیر کے روز چودھری تنویر کو سخت سیکورٹی اور بکتر بند گاڑی میں دوبارہ عدالت لایا گیا۔ اس موقع پر جوڈیشل کمپلیکس میں اینٹی رائٹس فورس اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی جبکہ مسلم لیگی کارکنان کی بڑی تعداد بھی عدالت کے باہر موجود تھی۔
اس موقع پر اینٹی کرپشن نے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تاہم عدالت نے 7 یوم کا جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے اینٹی کرپشن کو ہدایت کی کہ 21 مارچ کو ملزم کو عدالت میں پیش کرکے تحقیقات میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کیا جائے۔
گذشتہ روز سماعت کے دوران چودھری تنویر کے وکیل ملک وحید انجم نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل کے خلاف بغیر ثبوت کے مقدمہ درج کرکے کراچی سے غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا۔ انہیں کسی عدالت میں راہداری ریمانڈ کے لئے پیش نہیں کیا گیا۔ وہ دل کے عارضے میں مبتلا ہیں۔
وکیل نے عدالت سے کہا کہ تھا کہ چودھری تنویر لندن اور دبئی میں زیر علاج رہے۔ ان کا 60 فیصد دل کام نہیں کر رہا۔ ان کیخلاف درج مقدمے میں بنیادی ثبوت موجود نہیں ہیں۔ مقدمہ میں جائیداد سے متعلق دستاویزات میں نام شامل نہیں۔ وہ بیٹے کی شادی میں شرکت کے لئے پاکستان آئے تھے۔ ان کے آنے پر مقدمہ درج کیا گیا۔ وہ مسلم لیگ ن سے وابستہ ہیں اور سرکردہ سیاسی رہنما ہیں۔ یہ مکمل طور پر سیاسی انتقامی کی کارروائی ہے۔
چودھری تنویر کے وکیل نے کہا تھا کہ سرکاری اراضی پر قبضے کی من گھڑت ایف آئی آر درج کی گئی۔ ان کے خلاف درج ایف آئی آر میں شامل دفعات کسی بھی طور پر شامل نہیں کی جا سکتی۔ کوئی دستاویزی ثبوت ہی نہیں، زبانی جمع خرچ پر مقدمہ درج کیا گیا۔ بدنیتی پر مشتمل مقدمہ میں خسرہ نمبر ہی درج نہیں لہٰذا مقدمہ خارج کیا جائے۔ اس مقدمے اینٹی کرپشن والے جسمانی ریمانڈ کس بات کا مانگ رہے ہیں.
اس موقع پر عدالت نے استفسار کیا کہ چودhری تنویر احمد کی گرفتاری تو پنڈی میں ظاہر کی گئی ہے جس پر ملزم کے وکیل نے بتایا کہ نہیں جج صاحب اینٹی کرپشن نے کراچی ائیرپورٹ سے گرفتار کیا اور راہداری ریمانڈ بھی نہیں لیا.
اس موقع پر چودھری تنویرکے وکیل نے اعتراض کیا کہ اینٹی کرپشن والے پرائیویٹ کونسل والے مقرر نہیں کر سکتے۔ انہوں نے پبلک پراسیکیوٹر کی بجائے پرائیویٹ وکیل مقرر کیا جو غیر قانونی اقدام ہے۔
اس پر عدالت نے اینٹی کرپشن کے پرائیویٹ کونسل سے استفسار کیا کہ آپ کی تقرری قانون کے مطابق ہوئی ہے؟ اگر ایسا ہے تو آرڈر پیش کریں جس پر چودھری تنویر کے وکیل نے مزید بتایا کہ ہوم سیکریٹری پنجاب پرائیویٹ کونسل مقرر کرتا ہے، اینٹی کرپشن والے خود یہ اقدام نہیں کر سکتے۔
اس موقع پر عدالت نے چودھری تنویر کے وکیل سے استفسار کیا کہ اگر آپ نے درج مقدمہ سے متعلق دستاویزات کو چیلنج کر رکھا ہے تو سول سوٹ کیس کی دستاویزات پیش کریں اگر ولائت کمپلیکس آپ کی ملکیت ہے تو ثبوت دیں جہاں ولائت کمپلیکس تعمیر کیا گیا کیا، یہ شاہراہِ عام نہیں تھی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر یہ خسرہ نمبر درج مقدمہ والا نہیں ہے تو پھر ڈپٹی کمشنر یا جسے آپ کہتے ہیں اس سے رپورٹ طلب کر لیتے ہیں۔
یاد رہے کہ اینٹی کرپشن نے 8 مارچ کو راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (آر ڈی اے) کی ڈائریکٹر جنرل عمارہ خان کی مدعیت میں چودھری تنویر کے علاوہ آر ڈی اے کے 11 افسران اور اہلکاروں کے خلاف اینٹی کرپشن ایکٹ کی دفعہ 5/2/47 سمیت تعزیرات پاکستان کی دفعات 420،467،741،409 اور 167 کے تحت مقدمہ نمبر 09 درج کیا تھا۔