گزشتہ روز اسلام آباد کے سول جج نے خاتون جج کو دھمکی دینے سے متعلق کیس میں عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے جس کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے وارنٹ گرفتاری کو سیشن جج کی عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا۔
ایڈیشنل سیشن جج فیضان حیدرگیلانی نے درخواست کی سماعت کی۔ عمران خان کی جانب سے ان کے وکلاء نعیم پنجوتھہ اور انتظار پنجوتھا عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل انتظار حیدر نے دلائل دیے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پر لگائی گئی تمام دفعات قابلِ ضمانت ہیں۔ جج نے استفسار کیا کہ کیا اس سے پہلے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے؟
وکیل نے بتایا کہ کیس میں قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری نہیں ہوئے۔ عمران خان سابق وزیراعظم ہیں، سیکیورٹی مہیا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت نے عمران خان سے سیکیورٹی واپس لے لی ہے۔
جج نے سوال کیا کہ کوئی ایسا خط جس میں لکھا ہو کہ عمران خان کی سیکیورٹی واپس لے لی گئی؟ کل تک متعلقہ خط پیش کردیں۔ کچہری میں 2014 میں حملہ ہوا۔ کیا اس کے بعد کچہری منتقل ہوئی؟ عمران خان کی حکومت تھی لیکن پھر بھی کچہری منتقل نہیں ہوئی۔ آپ نے اپنے دور حکومت میں کچہری کو شفٹ نہیں کروایا۔ عمران خان کی الیکشن مہم تو شروع ہے۔
جج نے ریمارکس دیے کہ عمران خان جوڈیشل کمپلیکس پیش ہوئے لیکن کچہری تو پیش نہیں ہوئے۔نام تو تحریکِ انصاف ہے لیکن کیا کیا ہے؟ باتیں تو بہت ہوتی ہیں۔ تحریکِ انصاف کی کوئی ایک لیگل ریفارم بتا دیں۔ ویڈیو لنک پر بات ہو سکتی ہے لیکن لیگل ریفارم پر آپ کا دھیان ہی نہیں ہے۔
جج نے کہا ہے کہ عمران خان پہلے بھی کچہری آ چکے ہیں۔ دوبارہ بھی آ سکتے ہیں۔ عمران خان کو کیس کی نقول فراہم کرنی تھیں۔ اس لیے عدالت نے بلایا۔ ملزم کو ہی کیس کی نقول فراہم کی جاتی ہیں کسی اور کو نہیں دی جاتیں۔
عدالت نے وکلاء کو عمران خان کی سیکیورٹی واپس لینے سے متعلق دستاویزات عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ سیشن کورٹ اسلام آباد نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 16 مارچ تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز 13 مارچ بروز پیر کو خاتون جج کو دھمکی دینے سے متعلق کیس میں عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹِ گرفتاری جاری ہوئے تھے، جب کہ توشہ خانہ کیسز میں عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے انہیں گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
عدالت کی جانب سے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہونے پر اسلام آباد پولیس کل بذریعہ ہیلی کاپٹر عمران خان کی گرفتاری کے لیے لاہور پہنچی تھی لیکن ان کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔