ٹھٹھہ میں ایڈز کنٹرول پروگرام کی فوکل پرسن ڈاکٹر ام فروا نے کہا کہ اب تک دو خواتین اور تین مردوں میں ایڈز کی تشخیص ہو چکی ہے تاہم اس بارے میں حتمی رائے حاصل کرنے کے لیے انہیں کراچی کے ایک ہسپتال ریفر کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا، کراچی میں ان مریضوں کے ہونے والے ٹیسٹس میں سے ایک کا نتیجہ منفی آیا جب کہ ایک مریض بغیر کسی علاج کے اپنے گائوں واپس آ گیا جب کہ دو مریض نامعلوم وجوہ کی بنا پر کراچی گئے ہی نہیں۔
ڈاکٹر ام فروا نے کہا، ایک مریض سے جب عجلت میں کراچی سے واپسی کے بارے میں استفسار کیا گیا تو اس نے جواب دیا کہ وہ علاج کا طریقہ کار جان کر خوفزدہ ہو گیا تھا، چناں چہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ وہاں اپنا علاج نہیں کروائے گا۔
انہوں نے مزید کہا، ضلع کے مضافاتی علاقوں میں آباد زیادہ تر لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر ررہے ہیں جس کے باعث بہت سے مریض کراچی جانے کے اخراجات برداشت نہیں کرپاتے۔
انہوں نے متعلقہ اداروں سے درخواست کی کہ ایچ آئی وی سے متاثرہ مریضوں کو کراچی بھیجنے کے بجائے ان کے گھروں کے قریب ہی علاج کی سہولت فراہم کی جائے۔
ٹھٹھہ کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر ڈاکٹر حنیف میمن نے ضلع میں ایچ آئی وی سے متاثرہ مریضوں کی تعداد کے بارے میں سامنے آنے والی رپورٹیں مسترد کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ضلع میں صرف ایک مریض میں ہی ایچ آئی وی مثبت آیا تھا جو کراچی میں زیرعلاج ہے۔
واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں سندھ کے شہر لاڑکانہ کی تحصیل رتوڈیرہ میں اب تک 324 مریضوں میں ایچ آئی وی ایڈز کی تصدیق ہو چکی ہے جب کہ بلوچستان کی ڈویژن مکران کے شہر تربت میں تین سو سے زیادہ افراد میں ایچ آئی وی مثبت آنے کا انکشاف ہوا ہے۔
ضلع لاڑکانہ کے قصبے رتوڈیرہ کے ایس ایچ او سرتاج جاگیرانی کا کہنا ہے کہ جس ڈاکٹر پر یہ مہلک وائرس پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا ہے، اس کے بھی ایچ آئی وی پازیٹیو ہونے کی تصدیق ہو گئی ہے۔