31 سالہ بھوانی ایسپاتھی گذشتہ برس ستمبر میں ایک آپریشن کے نتیجے میں ڈیڑھ ہفتے کے لیے کوما میں چلی گئی تھیں۔ انہیں کوما کی ہی حالت میں ہوم آفس کی جانب سے خط موصول ہوا، جس میں کہا گیا کہ ان کے برطانیہ میں قیام میں توسیع کی درخواست رد کر دی گئی ہے اور انہیں جبری طور پر ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔
بھوانی کے 33 سالہ جرمن منگیتر مارٹن مینگلر نے ہوم آفس کے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی، جس میں انہوں نے ڈاکٹرز کی جانب سے جاری کردہ میڈیکل رپورٹس بھی منسلک کیں۔ ان رپورٹس میں تصدیق کی گئی تھی کہ بھارتی خاتون کی حالت سنگین ہے اور اس صورتحال میں سفر کرنے سے ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب ہوم آفس کا کہنا تھا کہ بھارت میں یہاں کے معیار کا علاج دستیاب نہ ہونے کی صورت میں بھی وہ برطانیہ میں مزید قیام کی اہل نہیں ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن ہوم آفس کی جانب سے ایسی امیگریشن درخواستوں کے مسترد کیے جانے کو ظالمانہ قرار دیتے ہیں اور بھوانی کا کیس اس کی تازہ ترین مثال ہے۔
بھوانی 2010 میں سٹڈی ویزا پر برطانیہ آئی تھیں، وہ کروہن (پیٹ) کی بیماری میں مبتلا ہونے سے پہلے آرٹ انڈسٹری میں کام کرتی رہی ہیں۔
اس سے پہلے ایک پاکستانی شخص کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ 38 سالہ نصراللہ خان کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں ان کا ٹرانسپلانٹ نہیں ہوسکتا تھا کیوں کہ ان کے ویزے کی معیاد ختم ہو گئی تھی۔ نصر اللہ بعدازاں رواں برس فروری میں انتقال کرگئے تھے۔
ایک اور واقعے میں امریکی خاتون کو، جن کے دو معذور برطانوی بچے ہیں، گذشتہ ماہ ملک بدری کی دھمکی دی گئی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کو اپنے دونوں معذور بچوں کو تنہا چھوڑ کر واپس امریکہ جانا تھا تاہم ہائی کورٹ کے حکم پر اس فیصلے پر عمل درآمد روک دیا گیا۔