اگر حکمران جماعت تحریک انصاف کے داخلی تضادات کی بات کی جائے تو یہ تضادات اس کے اقتدار میں آنے سے پہلے کے ہیں ،ہاں اب ان میں شدت آچکی ہے۔ اکتوبر 2011 کے جلسے کے بعد جب تحریک انصاف کا شمار ملک گیر سطح پر ہونے لگا تب کپتان نے انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کی بات کی یہ اپنی نوعیت کی پہلی کوشش تھی اس سے پہلے صرف جماعت اسلامی میں انٹرا پارٹی الیکشن ہوتے تھے ،وہ بھی جن کے نتائج پبلک نہیں کیے جاتے تھے بس امیر جماعت اسلامی کے نام کا اعلان کر دیا جاتا تھا۔ بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں ایسی کوئی روایت موجود نہیں تھی کیونکہ ان جماعتوں پر خاندانوں کی اجارہ داری قائم ہے اور وہ ان جماعتوں کو لمیٹڈ کمپنی کے طور پر چلاتے ہیں۔
تحریک انصاف نے سیاسی کارکنوں کی تربیت کے بغیر اپنے اندر ایک آئیڈیل ازم قائم کرنے کی کوشش کی جس میں بڑے نام رہے اور پارٹی بدترین دھٹرے بندی کا شکار ہو گئی۔ جہانگیر ترین گروپ اور شاہ محمود قریشی گروپ اس کی واضح مثال ہیں۔ پنجاب کی سطح پر عثمان بزدار گروپ اور علیم خان گروپ خبیر پختونخوا میں خٹک گروپ اور محمود خان گروپ کراچی میں گورنر عمران اسماعیل، علی زیدی، عامر لیاقت فصیل واوڈا سب اپنی اپنی بانسری بجا رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت میں آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان کو تباہ شدہ معیشت ملی اور وزیراعظم عمران خان نہایت نیک نیتی سے ملک کی ڈوبتی کشتی کو پار لگانے میں جت گئے مگر انکی گرفت اپنی پارٹی کے تنظیمی معاملات پر ڈھیلی پڑ گئی اور ضمنی انتخابات میں اپنی ہی خالی کردہ نشت بشمول مانسہرہ اور کراچی ہار گئے۔ مانسہرہ میں خٹک برادران کی باہمی چپکلش اور وزیر اعلیٰ محمود خان کو نیچا دکھانے کے چکر میں ہارے اور کراچی کی سیٹ فصیل واوڈا کی وجہ سے ہارے، ان کو الیکشن کمیشن میں اپنی نااہلی نظر آرہی تھی اس سے بچنے کے لیے انہوں نے سینٹ میں جانے کے لئے وزیراعظم عمران خان کو غلط گائیڈ کیا کہ میری خالی کردہ نشست تحریک انصاف بآسانی جیت لے گی۔
کراچی سے ہی تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے اس وقت کہا تھا یہ غلط فیصلہ ہے اور سب نے دیکھا کہ کراچی کے تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی نے کس قدر غیر سنجیدہ انتخابی مہم چلائی۔ فیصل واوڈا اور علی زیدی نے کیا کردار ادا کیا ،گورنر عمران اسماعیل کس قدر سنجیدہ تھے اور تحریک انصاف پہلے سے پانچویں نمبر پر آگئی اب رہی سہی کسر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور عثمان ڈار کے سیالکوٹ رمضان بازار کے واقعے نے نکال دی۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے ٹھیک کیا ہے یا غلط اس بحث کے لئے الگ دفتر درکار ہے تاہم پارٹی کے دو اہم ترین افراد کے اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ دوسری طرف جہانگیر ترین اپنی کرپشن پچانے کے لیے 20 کے قریب اراکین اسمبلی کو اپنے ساتھ ہر پشیی پر لے کر پیش ہو رہے ہیں اور پارٹی کے اندر اپنی طاقت دکھا رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کو ملک کے ساتھ ساتھ بڑی سنجیدگی سے اپنی جماعت کے داخلی تضادات حل کرنے ہوں گے وگرنہ 2023 کے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔