وزیر اعظم شہباز شریف نے منی لانڈرنگ کیس میں آج کی سماعت میں پیش نہ ہونے کی درخواست دائر کی تھی تاہم عدالت کی جانب سے ان کی درخواست منظور کرلی گئی ہے۔
ایف آئی اے کی جانب سے منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف، ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز اور دیگر ملزمان کو نامزد کیا گیا تھا۔
شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ ان کے مؤکل میڈیکل چیک اپ کے لیے بیرون ملک ہیں، انہیں کمر درد کا مسئلہ درپیش ہے، ہائی کورٹ نے پہلے بھی میڈیکل چیک اپ کے لیے شہباز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف پہلے بھی علاج کے لیے بیرونِ ملک جاتے رہے ہیں۔
خصوصی عدالت کے جج نے کہا کہ آج پھر کارروائی آگے نہیں بڑھ سکے گی، شیڈول کی تاریخ اوپر نیچے کر دیتے ہیں آج معمول کی تاریخ نہیں تھی۔
اس موقع پر ایف آئی اے کے وکیل فاروق باجوہ کا کہنا تھا کہ میڈیکل گراؤنڈ پر شہباز شریف کی حاضری معافی کی درخواست پر کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن مقدمے کی کارروائی کے لیے تمام ملزمان کا عدالت موجود ہونا ضروری ہوتا ہے۔
ایف آئی اے کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ میری آج عدالت میں پہلی پیشی ہے جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ میری عدالت کا ریکارڈ ہے ایک دن میں چالان کی کاپی فراہم ہوتی ہے اسکے بعد فرد جرم عائد کی جاتی ہے۔
وزیر اعظم کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ منی لانڈرنگ کیس میں جن کمپنیز کا ذکر کیا گیا وہ ساری ایس ای سی پی کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں، شہباز شریف ان کمپنیوں کے کبھی ڈائریکٹر یا شئیر ہولڈر نہیں رہے ان کے ذاتی اکاؤنٹ میں ایک بھی روپیہ موصول نہیں ہوا، سابق دور حکومت میں بغیر تفتیش کے یہ مقدمہ درج کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جن گواہوں نے بیانات دیے ان میں سے کسی نے جرم کے ارتکاب کے حوالے سے نہیں کہا ہے جبکہ سابق وزیر داخلہ نے اپنے سامنے بیٹھ کر گواہوں کے بیانات لکھوائے، جب گواہان کے بیان ریکارڈ کیے گئے اس وقت شہباز شریف اور حمزہ شہباز جیل میں تھے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی آر میں کیش بوائے کا ذکر ہے، اس کو دیکھیں، جس پر شہباز شریف کے وکیل نے بتایا کہ ایف آئی آر میں 25 ارب روپے کی بات کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ الزام لگایا گیا ہے کہ مختلف اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ ہوئی ہے، اس دور حکومت جس میں وزیر داخلہ اس کیس کی فائل سامنے رکھ کر پریس کانفرنس کرتے تھے شہباز شریف کے خلاف ایسی کوئی چیز ریکارڈ پر نہیں آئی جس سے کیس ثابت ہونے کا امکان بھی ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کے ریکارڈ اور چالان میں حقائق نہیں لیکن خواہشات ضرور ہیں، سابق حکومت کے کہنے پر ایف آئی اے نے بے بنیاد اور جھوٹا کیس بنایا، یہ کیس سیاسی انجینئرنگ کے لیے بنایا گیا۔
شہباز شریف کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ ایف آئی اے نے بدنیتی کی بنیاد پر کیس بنا کر عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ معاملے پر شہباز شریف اور حمزہ شہباز کا میڈیا ٹرائل کیا گیا، ملازمین اور کمپنیوں کے اکاؤنٹس سے شہباز شریف کا کوئی تعلق نہیں ہے، مسرور انور ایک ملازم تھا جو کیش نکلواتا تھا لیکن پاکستان کے کس قانون کے تحت کیش نکلوانا جرم ہے ؟
وکیل نے کہا کہ نیب بھی اسی معاملے پر تفصیلی تحقیقات کر کے ریفرنس دائر کر چکا ہے، مقصود چپڑاسی کی بات کریں تو ایک ملزم ایک الزام میں کتنی بار جیل جائے گا، مقصود چپڑاسی کا نام نیب کی ریمانڈ کی درخواست میں لکھا گیا تھا۔
وکیل امجد پرویز نے مزید کہا کہ نیب نے چھان بین کے باوجود کہیں نہیں کہا مسرور انور نے رقم نکلوا کر شہباز شریف کو دی ،مقصود چپڑاسی اور مسرور انور کا نام تو جسمانی ریمانڈ کی دستاویزات میں بھی تھا۔
قبل ازیں ایف آئی اے نے بینکنگ کورٹ میں ایف آئی اے نے چالان پیش نہیں کیاجب خطرہ ہوا کہ عدالت کاررواٸی کرے گی تو عبوری چالان جمع کروا دیا گیا اس سے قبل وفاقی ادارے کی جانب سے سات ماہ تک کوئی چالان جمع نہیں کروایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے پاس معاملے سے متعلق کوئی شہادت موجود نہیں تھی اسی وجہ سے وہ تاخیری حربے استعمال کرتے رہے، یہ مقدمہ صرف میڈیا ٹرائل کےلیے تھا تاکہ وزرا ٹی وی پر بیٹھ کر میڈیا ٹرائل کرتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق حکومت کا ایک ہی مقصد تھا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز ایک ہی مقدمہ میں مختلف عدالتوں میں پیش ہوں اور ایف آٸی آر کردار کشی اور سیاسی بیانیے پر کاٹی گئیں۔
وکیل نے مزید کہا کہ سلمان شہباز بزنس کرتے تھے اور پاکستان کے کسی قانون کے تحت بزنس کرنا جرم نہیں ہے جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ سلمان شہباز جو اشتہاری ہے، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ جی لیکن یہ بھی دیکھنا ہے کہ سلمان شہباز کو کس نے اشتہاری قرار دیا اس عدالت نے تو اشتہاری ڈکلیئر نہیں کیا ہے۔
وکیل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بے نامی ترسیلات پاکستان کے کسی قانون کی جرم نہیں لکھا گیا،2017 میں بے نامی ٹرانزیکشن ایکٹ سامنے آیا تھا اس سے پہلے بے نامی ترسیلات جرم نہیں تھا۔
جج نے استفسار کیا کہ ایک کلرک کیا تجارت کرتا ہے؟ وہ چینی کا کاروبار کھول کر بیٹھا ہے اسکی کیا وضاحت ہے، کلرک یہ کہہ کر بینک اکاؤنٹ کھلوائے کہ اسکا چینی کا کاروبار ہے اسکی کیا وضاحت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گنے کا کاروبار کرنے والے بھی اکاؤنٹ کھلواتے ہوئے یہی کہتے ہیں یہ کوئی جرم نہیں ہے، ایف آئی اے والے جعلی اکاؤنٹس کی بات کرتے ہیں۔
شہباز شریف کے وکیل نے عدالتی استفسار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر جعلی اکاؤنٹس کی بات ہے تو یہ کیس ایف آئی اے کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، ایک ہی کیس میں ایک ہی الزام میں دو بار گرفتاری نہیں ہو سکتی۔
عدالت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم کی کارروائی مؤخر کرتے ہوئے شہباز شریف کے وکیل کو کیس سے متعلق بحث مکمل کرنے کی ہدایت کر دی۔
دریں اثنا، ایف آئی اے کے وکیل نے کیس کی تیاری کے لیے عدالت سے مہلت طلب کرلی جس پر عدالت نے ایف آئی کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیس کی تفتیش مکمل ہو چکی ہے یا چل رہی ہے۔
عدالتی استفسار پر ایف آئی اے کے وکیل نے کا کہنا تھا کہ مجھے کیس کے فیکٹس کے بارے میں ابھی مکمل نہیں معلومات ہے۔
خصوصی عدالت نے شہباز شریف کی حاضری سے معافی کی درخواست منظور کرتے ہوئے وزیر اعظم اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت میں 21 مئی تک توسیع کر دی۔
خیال رہے کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو شوگر اسکینڈل میں منی لانڈرنگ کے کیس کا سامنا ہے، ایف آئی اے نے نومبر 2020 میں ان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ، کرپشن کی روک تھام ایکٹ اور انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔