یہ رپورٹ بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے ساحل کی جانب سے جاری کی گئی ہے۔ پاکستان میں بچوں کے خلاف ہونے والے جنسی جرائم پر جاری کی گئی سالانہ رپورٹ کے اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ سال بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی جرائم کے 2275 کل واقعات میں سے 750 بدفعلی، 676 جنسی زیادتی، 561 جنسی زیادتی کی کوشش، 133 جنسی زیادتی وغیر اخلاقی ویڈیوز کے کیسز شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق 92 واقعات میں بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا جبکہ بچوں کے اغوا کے 1303، گمشدگی کے 438 اور کم عمری کے شادی کے 80 واقعات رپورٹ ہوئے۔ بچوں کے خلاف جنسی زیادتی کے 68 واقعات میں بچوں کے رشتہ دار اور خاندان کے افراد ملوث پائے گئے۔
رپورٹ کے مطابق آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت 105 اضلاع سے بچوں کے خلاف جرائم رپورٹ ہوئی مگر سب سے زیادہ کیسز پنجاب کے ضلع قصور سے 298 کیسز رپورٹ ہوئی۔
گذشتہ سال 1303 بچوں کو اغوا کیا گیا جن میں 233 بچوں کو اغوا کے بعد جنسی زیادتی یا بدفعلی کا نشانہ بنایا گیا۔ رپورٹ کے مطابق جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والوں میں 54 فیصد لڑکیاں جبکہ 46 فیصد لڑکے شامل ہے۔
ساحل کی جانب سے جاری کی گئی سالانہ رپورٹ کے مطابق 6 سے 15 سال کے درمیان کی عمریں رکھنے والے بچوں کو زیادہ تر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جن میں لڑکوں کی تناسب زیادہ رہی جبکہ اس کے ساتھ ساتھ 5 سال یا اس سے کم عمریں رکھنے والے بچوں کو بھی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال 5 سال تک کے عمر کے 223 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جن میں 106 لڑکے جبکہ 117 لڑکیاں شامل ہیں اور اس تعداد میں گذشتہ سال کی نسبت 22 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کل واقعات میں سے 63 فیصد پنجاب، 23 فیصد سندھ، 6 فیصد اسلام آباد، 5 فیصد خیبر پختونخوا جبکہ بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے 2 فیصد واقعات رپورٹ ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق کل واقعات میں سے، 2،211 (57 فیصد ) دیہی علاقوں جبکہ 1،641 (43 فیصد) شہری علاقوں سے رپورٹ ہوئے۔ سال 2021ء میں 84 فیصد واقعات پولیس کے ساتھ رجسٹرڈ ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کیسز پاکستان کے چاروں صوبوں سمیت، وفاقی دارلحکومت اسلام آباد، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے رپورٹ ہوئے۔
ساحل نے سالانہ رپورٹ میں بچوں کے خلاف جنسی جرائم میں ملوث مختلف عناصر کی بھی نشاندہی کی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق بچوں خلاف جنسی جرائم کے کل کیسز میں سے 21 میں سکول کے اساتذہ، 59 کیسز میں دینی مدرسے کے اساتذہ، 13 کیسز میں پولیس اہلکار، 17 میں سوتیلے باپ، 36 کیسز میں والد، 10 میں چچا اور ماموں، 2 کیسز میں دادا، 2 کیسز میں ڈاکٹرز، 3 میں بھائی ، 10 میں چوکیدار، 14 میں بس اور رکشہ ڈرائیورز، 3 میں بھائی جبکہ 44 کیسز میں دکاندار ملوث نکلے۔
رپورٹ کے مطابق بچوں پر مختلف نوعیت کے تشدد کے کیسز میں 10 واقعات ہسپتالوں سے ، 16 دینی مدارس، 53 تعلیمی اداروں، 3 پولیس سٹیشن، 5 مزاروں، 35 مختلف قسم کے عبادت گاہوں سمیت دیگر جگہوں سے رپورٹ ہوئی۔