سوال یہ ہے کہ کیا فہد حسین پاکستان یا دنیا کے پہلے، آخری یا انوکھے صحافی ہیں جنہوں نے سرکاری عہدہ لیا ہو؟ کیا دنیا بھر میں صحافی سیاسی جماعتوں کے ترجمان، پی آر کمپنیز کے مالک، پینٹاگون تک کے سرکاری ترجمان نہیں بنتے رہے؟ کیا پاکستان میں یہ پہلا واقعہ ہے؟ کیا تحریکِ انصاف اس قسم کی تمام 'علتوں' سے پاک ہے جو آج تحریکِ انصاف کے خیال میں یکایک علتیں بن گئی ہیں؟ پاکستان کی تاریخ ایسے واقعات سے اٹی پڑی ہے۔ نجم سیٹھی وزیرِ اعلیٰ پنجاب رہے، فاروق لغاری کابینہ کا حصہ رہے، پی سی بی چیئرمین رہے۔ ایاز امیر مسلم لیگ ن کے ایم این اے بھی تھے اور ڈان میں کالم بھی لکھا کرتے تھے۔ ملیحہ لودھی، شیری رحمان، مشاہد حسین سید، غلام مرتضیٰ پویا اور ایسے درجنوں صحافی ہیں جنہوں نے سیاسی عہدے بھی لیے اور مستقل طور پر صحافت کو خیرباد کہہ دیا، یا بعد میں دوبارہ صحافت میں واپس آ گئے، یا پھر دونوں کام ایک ساتھ جاری رکھے۔ جن لوگوں کو اس تعیناتی سے مسئلہ ہے، ان ناقدین کی فہرست مرتب کرنا درست نہیں کیونکہ دلوں کے حال اللہ ہی جانتا ہے لیکن دوسرے نمبر پر تحریکِ انصاف کو سب سے زیادہ مرچیں لگی ہیں تو ان کی خدمت میں ان کی اپنی پارٹی کے صحافیوں کی ایک چھوٹی سی فہرست حاضر ہے۔ یاد رہے ان میں وہ صحافی شامل نہیں جو پارٹی میں عہدہ لیے بغیر پارٹی کے لئے صحافت کر رہے ہیں۔
1۔ شیریں مزاری
شیریں مزاری پاکستان کی صفِ اول کی صحافیوں میں سے ایک تھیں۔ صحافت میں سب سے اعلیٰ عہدہ ایڈیٹر کا ہوتا ہے اور یہ ملک کے ایک مؤقر ترین انگریزی روزنامے دی نیشن کی ایڈیٹر تھیں جب انہوں نے پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ تحریکِ انصاف حکومت میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق رہیں۔
2۔ فواد چودھری
فواد چودھری نے کریئر کا آغاز دی فرائیڈے ٹائمز اور ڈیلی ٹائمز جیسے اداروں میں کالم لکھنے سے کیا۔ اس سے پہلے وکیل بھی تھے مگر 'ہرچند کہیں ہے کہ نہیں' والا معاملہ تھا۔ اس کے بعد موصوف مشرف کے ترجمان بنے۔ پھر یوسف رضا گیلانی کے ترجمان ہوئے۔ اس کے بعد صحافت میں واپس قدمِ رنجا فرمایا اور ایکسپریس، اے آر وائے، نیو سمیت متعدد چینلز کی رونق بڑھانے کے بعد پی ٹی آئی کو پیارے ہوئے اور وزیرِ اطلاعات اور وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی لگے۔
3- شفقت محمود
سابق وفاقی وزیر برائے تعلیم شفقت محمود صحافت اور سیاست لگاتار گذشتہ قریب دو دہائیوں سے کرتے آ رہے تھے۔
4- مزمل اسلم
پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں یہ صاحب بھی اعلیٰ عہدے پر رہے۔ آج کل اقتصادی امور پر پارٹی کے ترجمان ہیں۔ ماضی میں پارٹی کے حق میں بلاگ وغیرہ لکھا کرتے تھے۔ معیشت پر ان کے بلاگز اب بھی انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔
5- حسان خاور
حسان خاور کی صلاحیتوں کا کون معترف نہیں؟ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وہ اخباروں میں کالم بھی لکھتے رہے ہیں، ٹی وی چینلز سمیت ہمارے اپنے نیا دور کے پروگرامز میں مستقل مہمان رہے ہیں۔ اور عثمان بزدار صاحب کے ترجمان بھی رہے ہیں۔ ان کی مذمت کیے جانا بھی ہم کہتے ہیں قابلِ مذمت ہے۔ لیکن فہد حسین کی مذمت ہی کیوں کی جائے؟
6- عامر لیاقت حسین
اب ان کے بارے میں تو کیا ہی کہا جائے؟ بہر حال جناب اینکر بھی تھے، عالم آن لائن بھی، وفاقی وزیر بھی۔ پھر صرف عالم آن لائن بن گئے۔ پھر ساتھ نیلام گھر ٹائپ کے ایک شو کے میزبان بھی بن گئے۔ پھر دوبارہ ایم این اے بھی بن گئے اور بدستور پروگرام بھی جاری رکھا۔
7- رؤف حسن
رؤف حسن نجانے کب سے عمران خان کے حق میں کالم پر کالم لکھتے چلے آ رہے تھے۔ اللہ نے ان کی بھی سنی۔ عمران خان دور میں عین اسی عہدے پر فائز ہوئے جس پر آج فہد حسین کو فائز کیا گیا ہے۔ مجال ہے جو کسی انصافی کی چوں بھی نکلی ہو۔ نکلے بھی کیوں؟ مگر فہد حسین ہی کے لئے یہ نئے قوانین کس لئے؟
8- حسن عسکری رضوی
ان کی شان میں بس اتنا ہی لکھا جانا کافی ہے کہ 2018 کے جو تاریخی انتخابات ہوئے تھے، جن کے صدقے میں ہمیں عثمان بزدار جیسا نیک سیرت وزیر اعلیٰ پنجاب ملا، یہ حسن عسکری رضوی کی ہی نگران وزارتِ اعلیٰ کے تحت ہوئے تھے۔ آج کل دنیا نیوز پر پروگرام تھنک ٹینک کے مستقل تجزیہ کار ہیں۔
9۔ یوسف بیگ مرزا
یوسف بیگ مرزا بھی عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے میڈیا کے عہدے پر رہے۔ یہ اب ڈیلی ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں۔ ماضی میں متعدد ٹی وی چینلز سے منسلک رہے ہیں۔ پی ٹی وی کے ایم ڈی تک رہ چکے ہیں۔
10۔ طاہر خان
طاہر خان نیوز ون کے مالک تھے۔ عمران خان کے مشیر تھے۔ پھر ان کے چینل سے ہی نیب چیئرمین کی وہ مشہورِ زمانہ مبینہ آڈیو ٹیپس لیک ہوئیں اور عہدے سے ہٹا دیے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے چینل کی اسی مہربانی کا صدقہ تھا کہ عمران خان جب تک وزیر اعظم رہے، ان کے ارکانِ اسمبلی نیب کی ہر طرح کی دست درازیوں سے محفوظ رہے۔