نیب ترامیم کیس؛ جسٹس اطہر من اللہ کے اختلاف پر عمران خان کو پیش ہونے کی اجازت

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا یہ آئین اور قانون کی تشریح کا معاملہ ہے، کسی انفرادی شخص کے حقوق کا معاملہ نہیں۔ اس طرح تو پھر ہر کوئی پیش ہونا چاہے گا۔ اگر اس کیس کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو الگ بات ہے۔ جو شخص وکیل نہیں وہ عدالت کی معاونت کیسے کر سکتا ہے؟

03:03 PM, 14 May, 2024

سید صبیح الحسنین

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش ہونے کی اجازت دے دی۔ امکان ہے 16 مئی کو عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے۔

تفصیلات کے مطابق نیب ترامیم کیس کی سماعت کے آغاز میں ہی اختلاف پیدا ہو گیا جس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت میں پانچ منٹ کا وقفہ کر دیا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ نیب کے بارے میں تاثر ہے کہ یہ پولیٹیکل انجینئرنگ میں ملوث ہے اور نیب ترامیم کیس میں عمران خان درخواست گزار ہیں تو کیسے ہو سکتا ہے کہ انہیں نہ سنیں۔ اگر عمران خان چاہتے ہیں تو انہیں سپریم کورٹ میں پیش کرنے کے لیے انتظامات کرنے چاہئیں، ہم انہیں deny نہیں کر سکتے۔ حتیٰ کہ اگر وہ ویڈیو لنک کے ذریعے بھی پیش ہونا چاہتے ہیں تو انتظامات کیے جائیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا ہمارے آرڈر میں لکھا تھا کہ اگر عمران خان نمائندگی چاہتے ہیں تو ان کے لیے انتظامات کیے جائے۔ یہ مکمل طور پر آئین اور قانون کی تشریح کا معاملہ ہے، کسی انفرادی شخص کے حقوق کا معاملہ نہیں ہے۔ اس طرح تو پھر ہر کوئی پیش ہونا چاہے گا۔ اگر اس کیس کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو الگ بات ہے۔ کیا آئینی و قانونی معاملے پر کوئی ایسا شخص عدالت کی معاونت کر سکتا ہے جو وکیل نہیں ہے؟

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

سماعت میں وقفے کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عمران خان کو اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش ہونے کی اجازت دے دی۔ 16 مئی کو ویڈیو لنک کے ذریعے عمران خان کے سپریم کورٹ میں پیش ہونے کا امکان ہے۔

آج کی سماعت سے متعلق سپریم کورٹ نے حکم نامہ جاری کر دیا۔ حکم نامے کے مطابق حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کا اکثریتی فیصلہ قانون کے مطابق درست نہیں تھا، نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے والا عدالتی بنچ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت تشکیل ہی نہیں دیا گیا تھا۔

حکم نامے کے مطابق سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ بے نظیر بھٹو کیس کی روشنی میں آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت نیب ترامیم کے خلاف دائر کی گئی اپیل قابل سماعت ہی نہیں تھی۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومتی دور میں جب عمران خان وزیر اعظم تھے اس وقت نیب ترامیم میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ترامیم کی گئیں۔ پارلیمنٹ کی نیب قانون میں ترامیم میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کی گئی ترامیم کو بھی شامل کیا گیا۔

وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ نیب ترامیم کو چیلنج کرنے والے مرکزی درخواست گزار نے نیک نیتی سے عدالت میں رجوع نہیں کیا۔ مرکزی درخواست گزار براہ راست نیب ترامیم سے متاثرہ ہی نہیں تھے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے عدالتی حکم نامے کی نقل ایڈووکیٹ خواجہ حارث اور عمران خان کو بھجوانے کی ہدایت دیتے ہوئے نیب ترامیم کیس کی سماعت 16 مئی تک ملتوی کر دی۔

مزیدخبریں