مذہب پرستی و قوم پرستی کے خود ساختہ بیانیوں پر تنقید کرنا بھی گناہ کبیرہ قرار دیا جا چکا ہے
اس وقت صورتحال کچھ یوں ہے کہ نصرت جاوید، مرتضیٰ سولنگی، طلعت حسین اور مطیع اللّٰہ جان جیسے نڈر صحافیوں کو خاموشی سے ٹی وی چینلوں کی سکرینوں سےغائب کروا دیا گیا ہے اور بہت سے آزاد منش صحافیوں اور تجزیہ نگاروں پر اس سے کچھ عرصہ قبل ہی ٹیلی وژن اور ریڈیو میں آنے پر خاموش پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں۔ جبکہ پرنٹ میڈیا میں جو کالم پہلے کسی نہ کسی طور ادارے سے بحث و تکرار کے بعد شائع کروا لیے جاتے تھے اب ان کو شائع کروانا ناممکن ہو چکا ہے۔ بلوچستان کے مسئلے اور لاپتہ افراد پر بات کرنے کی تو خیر ہمیشہ سے ہی ممانعت تھی لیکن اب عسکری اداروں کی سیاست میں مداخلت، عدلیہ کے متنازعہ فیصلوں پر تنقید، حکومت وقت کی غیر سنجیدہ کوششوں پر تنقید اور مذہب پرستی و قوم پرستی کے خود ساختہ بیانیوں پر تنقید کرنا بھی گناہ کبیرہ قرار دیا جا چکا ہے۔
جو اپنے باقی ماندہ کاروباری اداروں سے کروڑوں اربوں روپے کا منافع کماتے ہیں وہ اپنے چینل سے پیسوں کی کمی کا بہانہ بنا کر لوگوں کو نکال دیتے ہیں
ٹی وی چینلوں اور اخبارات کو دباؤ میں لانے کیلئے پچھلے کچھ ماہ حکومت نے اشتہارات کے واجبات کی ادائیگی سے انکار کر دیا اور نتیجتاً مالی بحران کا شکار ہونے والے ٹی وی چینلوں اور اخبارات نے رپورٹروں، نیوز ڈیسک پر کام کرنے والے افراد اور پروڈکشن میں کام کرنے والے افراد کی ایک اچھی خاصی تعداد کو ملازمت سے برطرف کر دیا۔ یہاں یہ بات حیران کن ہے کہ اکثر میڈیا گروپ جو اپنے باقی ماندہ کاروباری اداروں سے کروڑوں اربوں روپے کا منافع کماتے ہیں وہ اپنے ٹی وی چینلوں اور اخبارات کے ملازمین کو مالی بحران کا بہانہ بنا کر یا تو ملازمت سے نکال دیتے ہیں یا اس بنا پر ان کی کئی ماہ کی تنخواہیں روک لیتے ہیں۔ یہ پابندیاں جو اس وقت میڈیا پر عائد ہیں ان کی ایک بڑی وجہ زیادہ تر ٹی چینلوں اور اخبارات کے مالکان کا کاروباری مفادات اور مختلف ٹی وی اینکرز اور صحافیوں کا ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر حقائق پر مبنی صحافت کے بجائے سنسنی پھیلانے اور پراپیگینڈہ پر مبنی زرد صحافت کا پرچار بھی ہے۔
صحافیوں اور میڈیا گروپوں کے درمیان تقسیم نے نظر نہ آنے والی پابندیاں عائد کرنے کا اقدام انتہائی آسان بنا دیا
صحافیوں اور میڈیا گروپس کے طاقت کی بساط پر موجود اپنے اپنے پسندیدہ فریقین کی طرف داری کرنے کے باعث پاکستان میں صحافت کا معیار بھی زوال پذیر ہونے کا باعث بنا۔ عوام نے صحافیوں کو ان کی حقائق پر مبنی رپورٹنگ یا بے لاگ تبصروں کے برعکس اپنی اپنی سیاسی وابستگی کے تناظر میں پسند اور ناپسند کرنا شروع کر دیا۔ صحافیوں اور میڈیا گروپوں کے درمیان تقسیم اور پھر عوام کے اندر صحافیوں اور میڈیا گروپوں بارے تقسیم نے پس پشت قوتوں کیلئے نظر نہ آنے والی پابندیاں عائد کرنے کا اقدام انتہائی آسان بنا دیا۔ 2010 کے بعد سے پس پشت قوتوں کو ریاست پر اپنی روایتی اجارہ داری قائم رکھنے میں پہلی بار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اس کی بڑی وجہ بے باک اور آزاد منش صحافیوں کا ریاست کے بیانیوں اور اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی اور کاروباری معاملات پر حقائق پر مبنی تجزیے پیش کرنا تھا۔ اس کو روکنے کیلئے پس پشت قوتوں نے روایتی قوم پرستی کا کارڈ استعمال کرتے ہوئے اختلاف رائے کرنے والے صحافیوں کو غداری کے القابات سے نوازنے کی کوشش کی لیکن مطالعہ پاکستان کے اسیر ذہنوں کے سوا کسی نے بھی اس روایتی "غداری" کے الاپ پر کان نہیں دھرے۔
صحافت میں پیراٹروپرز کی آمد، اور تحریکِ انصاف کا عروج
چنانچہ پھر آہستہ آہستہ عوام کو صحافت اور صحافیوں سے متنفر کروانے کا کام شروع کیا گیا۔ سونے کا کاروبار کرنے والی شخصیت کا ٹی وی چینل اور جعلی ڈگریوں اور فحش ویب سائٹس کا کاروبار کرنے والے شخص کے ٹی وی چینل اور ان کے اینکروں کے ذریعے پراپیگینڈے کا پرچار کیا گیا اور پھر بعد ازاں گھی بنانے کی صنعت سے وابستہ گروپ کا ٹی وی چینل بھی اسی کام کیلئے استعمال ہوا۔ دفاعی تجزیہ کاروں کے روپ میں ریٹائرڈ افسران کو ٹی وی چینلوں کی سکرینوں پر بٹھایا گیا اور ان تجزیہ کاروں نے دفاع کے سوا باقی سب مسائل بالخصوص سیاست اور مذہب پر دن رات اپنے "مخصوص تجزیے" پیش کرنے شروع کر دیے۔ اسی اثنا میں تحریک انصاف کو تراش خراش کر اسے ایک نیک اور پاک قیادت پر مبنی جماعت کے روپ میں پیش کیا گیا۔ تحریک انصاف نے مقبولیت حاصل کرتے ہی جارج بش کی نرگسیت پر مبنی پالیسی اپناتے ہوئے "یا آپ ہمارے ساتھ ہیں یا آپ ہمارے خلاف ہیں" کا نعرہ بلند کر دیا۔
صحافی اور میڈیا گروپس بٹے رہے اور ایک دوسرے پر غداری اور گستاخی کے فتوے صادر کرتے رہے
نتیجتاً عوام صحافت سے مزید متنفر ہوئے اور کسی بھی تنقید کرنے والے صحافی یا تجزیہ نگار کو اپنا ذاتی دشمن سمجھنے لگ گئے۔ جب علامہ اقبال کے شعر "جدا ہو دیں سے سیاست تو رہ جاتی ہے چنگیزی" پر من و عن عمل کرتے ہوئے ایک بار پھر سیاست میں مذہب کا استعمال کرتے ہوئے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تو اس وقت بھی صحافی اور میڈیا گروپس بٹے رہے اور ایک دوسرے پر غداری کے فتوے صادر کرنے کے بعد پھر ایک دوسرے پر توہین مذہب کا الزام بھی لگانا شروع کر دیا۔ یوں آہستہ آہستہ پس پشت قوتوں نے ایک نظر نہ آنے والا کھیل رچا کے پہلے اپنے مہرے اقتدار کے ایوانوں میں بٹھائے اور پھر آزادی اظہار رائے اورصحافت پر نظر نہ آنے والی کڑی سینسر شپ بھی عائد کر دی گئی۔
رقص کرنے پر پابندی تو نہیں ہے لیکن شرط یہ ہے کہ رقص اس ساز کی لے اور اس دھن پر کیا جائے جو شاہ کے راگ درباری پر مبنی ہو
اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ لب کشائی کی اجازت تو ہے لیکن محض قصیدہ خوانی کیلئے، زبان بولنے اور ہاتھ لکھنے کیلئے آزاد تو ہیں لیکن محض شاہ اور شاہ کے دستور کی تعریف کیلئے۔ بینائی کا رکھنا جرم تو نہیں ہے لیکن اس کا استعمال کرنا جرم ہے۔ رقص کرنے پر پابندی تو نہیں ہے لیکن شرط یہ ہے کہ رقص اس ساز کی لے اور اس دھن پر کیا جائے جو شاہ کے راگ درباری پر مبنی ہو۔ مختصر یہ کہ قحط الرجال کے شکار سماج میں مزید قحط حرف حق کا بحران پیدا کر کے حکم دیا گیا ہے کہ سر جھکائے آنکھیں اور کان بند کیے ہوئے بے معنی اور لا حاصل سفر کی تھکان دور کرنے کیلئے سماج میں ایسے اندھے خواب بیچو جن کی کوئی تعبیر ہی نہیں ہے۔ اب ایسے حالات میں ضمیر اور روح کا دھندہ کرنے والے لفظوں کے بیوپاریوں کی تو پانچوں انگلیاں گھی میں ہو سکتی ہیں لیکن حق حرف لکھنے اور بولنے والوں کیلئے یہ ایک اور نئی قسم کا حبس و جبر کا موسم ہے۔ جنہیں صدائے احتجاج اور حرف حق کے اذن سے نوازا جاتا ہے شاید امتحانات بھی انہی کے زیادہ لیے جاتے ہیں۔
عرض صرف یہ ہے کہ ہماری مقتدر قوتوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ دنیا کی تاریخ میں آج تک کوئی قوم یا بستی اختلاف رائے، آزادی اظہار رائے یا خود احتسابی کے عمل کی وجہ سے تباہ و برباد نہیں ہوئی بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ ہمیشہ وہ سماج اور وہ بستیاں زمین بوس ہوئیں جہاں اختلاف رائے جرم اور اظہار آزادی رائے گناہ تصور کیا جاتا تھا۔