دنیا بھر میں ایسی نظیر نہیں ملتی ہے کہ معذور افراد کے ساتھ متشدد رویہ اختیار کیا جاتا ہو۔ پاکستان کا آئین معذور افراد کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور اسلام میں بھی معذور افراد کے حقوق کو بڑے واضح انداز میں تحفظ دینے کے احکامات موجود ہیں لیکن سر زمین پاکستان میں مذہب پرست اور وطن پرست لچھے دار باتیں تو کرتے ہیں مگر عملی طور پر ریاست معذور افراد کو حقوق دے رہی ہے اور نہ مذہب پرست معذور افراد کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں۔
مساجد اور عبادت گاہوں کے دروازے دیکھ لیں کہ ایک نارمل اور صحت مند انسان بمشکل زینے چڑھتا ہے۔ یہی حال ریاست اور حکومتوں کا ہے کہ بھاری معاوضوں پر بڑے بڑے بیورکریٹ دفاتر میں بیٹھا دیے گئے ہیں، جن تک معذور افراد کی رسائی بالکل بھی نہیں ہے۔ عمارات میں راہداریاں اس طرح سے بنائی جاتی ہیں کہ معذور فرد کسی دفتر میں نہیں جا سکتا۔
ٹرانسپورٹ، تعلیمی ادارے، ہسپتال سمیت کوئی سرکاری عمارت ایسی نہیں ہے کہ جس میں معذور افراد آسانی سے داخل ہوسکیں۔ ظلم و ناانصافی یہ ہے کہ معذور افراد کو دی جانے والی تھوڑی بہت سہولیات کو بھی چھین لیا جاتا ہے۔ جس کی تازہ مثال ہاتھ پاؤں سے معذور صادق آباد کی کرن اشتیاق کی ہے۔ جس نے تعلیمی میدان میں نمایاں کاکردگی دکھائی تو پنجاب کی سابق حکومت نے کرن اشتیاق کا وظیفہ مقرر کیا اور تعلیم جاری رکھنے کیلئے ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی مہیا کی۔ نئی تبدیلی سرکار کے آتے ہی کرن اشتیاق کا نہ صرف وظیفہ بند کر دیا بلکہ کالج آنے جانے کے لئے فراہم کردہ ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی واپس لے لی گئی ہے۔ جس پر کرن اشتیاق جو مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے پر عزم تھی، اس کے سارے خواب چکنا چور ہو گئے ہیں۔ یعنی تبدیلی سرکار نے کرن اشتیاق پر بجلی گرا دی ہے۔ یہی نہیں بلکہ پنجاب میں سابقہ حکومت کی جانب سے فراہم کردہ خصوصی رعایتی کارڈ اور دیگر سہولیات سمیت بے نظیر انکم سپورٹ کی جانب سے ملنے والی امدادی رقم بھی بند کر دی گئی ہے۔
یہ وہی پی ٹی آئی اور عمران خان ہیں جو دھرنوں کے دوران معذور افراد کے حقوق پر بلند و بانگ دعوے کرتے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے معذور ونگ کا اعلان کیا گیا جو آج تک فعال نہیں کیا گیا۔ محض نوسربازی کی گئی اور معذور افراد کو لالی پاپ دیا گیا تھا۔
پیپلزپارٹی کی حکومت میں معذور افراد کو سہولیات دینے کے اقدامات کیے گئے، وہ بھی تبدیلی سرکار نے ٹھپ کر دیے ہیں۔ اس ظلم و نا انصافی پر حکومت سے تو نہیں ریاست پاکستان سے مطالبہ ہے کہ عدالت عظمیٰ اور سپہ سالار اعلیٰ اس امر کا فوری نوٹس لیں اور معذور افراد کی بحالی اور روزگار کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں تاکہ معذور افراد معاشرے کا عضو معطل بننے سے بچ سکیں۔
موبیلٹی کی سہولیات دینے سے معذور افراد معاشرے کے کارآمد شہری بن سکتے ہیں اور دیگر افراد کی طرح قومی ترقی میں بھر پور کردار ادا کر نے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان جو مغرب کی مثالیں دیتے تھکتے نہیں ہیں کیا انہیں مغرب میں معذور افراد کے ساتھ ایسے ریاستی رویے نظر آتے ہیں۔ مغرب میں تو کوئی معذور سڑک پر آ جائے تو ساری ٹریفک رک جاتی ہے، جب تک کے معذور شخص سڑک پار نہ کر لے۔
وزیراعظم پاکستان، ناروے میں پاکستانی شہری بوبو کو ہی دیکھ لیں کہ معذوری کے باوجود ایک کامیاب بزنس مین ہے۔ بوبو اگر پاکستان میں ہوتا تو کیا وہ کامیاب ہو سکتا تھا؟ آپ کی ہی تبدیلی سرکار نے اسے ناکام بنا دینا تھا۔
وزیراعظم صاحب! مغرب کی مثالیں کافی ہو چکی ہیں۔ عمل کر کے دیکھائیں۔ صادق آباد کی دونوں ہاتھوں اور پاؤں سے معذور طالبہ کرن اشتیاق بے بسی کی تصور بنے تبدیلی سرکار کے فیصلے پر نوحہ کناں ہے، کرن اشتیاق کی بھی آواز سنیں۔