سی پیک منصوبے سے ہمیں مستفید نہیں کیا جا رہا، بلوچستان کے طلبہ کا شکوہ

09:00 PM, 14 Nov, 2021

نیا دور
بلوچستان کے نوجوانوں کا شکوہ ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کے تحت سرمایہ کاری میں آج تک ایک میکنزم کے تحت ان کے لیے اسکالرشپس کے مواقع پیدا نہیں کئے گئے تو وہ کیسے اس ترقی کا حصہ بن سکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ نہ ہم اس سے مستفید ہو رہے ہیں اور نہ ہی عام لوگوں کے لیے کچھ ہو رہا ہے۔ اگر سی پیک دونوں ممالک کے مابین ایک اکنامک معاہدہ ہے تو اسے عام کیوں نہیں کیا جا رہا؟ اور ہمیں کیوں نہیں بتایا جاتا کہ اس میں ہمیں کیا ملے گا؟ سی پیک سے متعلق حکومت اور بلوچستان کے عوام کے درمیان ایک بہت بڑی دوری نظر آ رہی ہے۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ وطالبات نے یہ باتیں حال ہی میں ایک تھنک ٹینک ریسرچ انسٹیٹیوٹ “سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز ( سی آر ایس ایس ) کے زیر اہتمام دو روزہ “ Fake news and critical training “ کے موضوع پر تربیتی ورکشاپ کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہیں۔

اس دو روزہ تربیتی ورکشاپ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ آج کے سوشل میڈیا کے دور میں منفی پروپیگنڈہ پھیلانے میں فیک نیوز تیزی سے پھیلتی جا رہی ہیں، اس کے تدارک کے لیے پڑھے لکھے نوجوان کسی بھی خبر کو کنفرم ہونے تک کم از کم اس پر کچھ لمحے کے لیے سوچ لیں پھر ان کے ٹرینڈز کا حصہ بنیں، آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ فیک نیوز اس لیے زیادہ وائرل ہو رہی ہیں کہ ہم بغیر سوچے سمجھے اس کا حصہ بنتے آ رہے ہیں۔

https://twitter.com/GohramAslamB/status/1459545333558657026?s=20

اس سیشنز میں محسوس کیا گیا کہ بلوچستان کے طلبہ وطالبات میں بہت ساری پوشیدہ صلاحیتیں ہیں، جنھیں نکھارنے کی ضرورت ہے جس کے لیے اس طرح کی سرگرمیوں میں انہیں موقع فراہم کرنا ضروری ہے۔

اگر بلوچستان کی اس نسل کو اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے مواقع دے کر ان کی رہنمائی کی جائے تو وہ آگے چل کر صوبے کی بہتر اور سائنٹفک انداز نمائندگی کر سکتے ہیں۔

طلبہ و طالبات کا یہی شکوہ ہمیشہ رہا ہے کہ ہمیں مرکز نے ہمیشہ نظر انداز کیا۔ آج بلوچستان ایک اسٹرٹیجک اہمیت رکھتا ہے اور عالمی طاقتوں کی نظریں بلوچستان کی ساحل تک رسائی پر ہیں۔ سی پیک کے تحت اربوں ڈالر کا سرمایہ مختلف شعبہ میں تو لگایا گیا مگر بلوچستان کے انفراسٹرکچر اور ٹیکنیکل ایجوکیشن میں ابھی بھی کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آ رہی ہے۔

اس طرح کے سیشن سے کم از کم یہ فائدہ ہوگا کہ نوجوانوں کے تحفظات کو سُنا جاتا ہے اور مزید ان کی تربیت بھی ہو سکتی ہے۔ اس وقت بے شمار ایسے ادارے ہیں جو نوجوانوں پر کام کرنے کی بلند و بانگ دعوے تو کرتے ہیں مگر ان کی تربیت کے لیے عملی طور پر کچھ نظر نہیں آ رہا ہے۔

 
مزیدخبریں