’اداروں کو دائرہ کار میں رہنے کی ہدایت ناگوار گزری‘، جسٹس قاضی فائز کا جواب الجواب

01:15 PM, 14 Oct, 2019

نیا دور
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف اپنا جواب الجواب عدالت عظمیٰ میں جمع کرادیا۔

دلائل کے آغاز میں ہی وکیل منیر اے ملک نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ ہی جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس کی وجہ بنا ہے۔


انہوں نے کہا کہ کیوں کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں ’ملٹری انٹیلیجنس، آئی ایس آئی اور فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو اپنے دائرہ کار میں رہنے کی ہدایت کی تھی جو اُن اداروں کو ناگوار گزری اور جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف کیس بن گیا۔‘


جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے منیر اے ملک کی جانب سے داخل کرائے جواب الجواب میں کہا ’کہ اہلخانہ کی ملکیتی جائیدادوں کی منی ٹریل دینے کا پابند نہیں، اہلیہ اوربچے میرے زیر کفالت نہیں اس وجہ سے مالی معاملات کا علم نہیں، اہلیہ اور بچوں کی زیرملکیت جائیدادوں کی تفصیل سے آگاہ کرنے کا نہیں کہا جاسکتا۔‘


انہوں نے کہا کہ  الزام لگا کر ان کی شہرت اور ساکھ کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ کے مطابق کراچی میں 1600 مربع گز کا گھرہے جو پچھلے 10 سال سے خالی ہے، بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ کوئٹہ اور جج سپریم کورٹ اسلام آباد میں رہائش پذیر رہا ہوں، لندن یا بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں اور نا ہی اہلیہ کی دوہری شہریت ہے۔‘

انہوں نے اپنے جواب میں یہ بھی کہا کہ پہلی جائیداد 2004 میں 2 لاکھ 36 ہزار پاؤنڈ پاکستانی 2 کروڑ 60 لاکھ روپے میں خریدی، دیگر 2 جائیدادیں 2013 میں بالترتیب 2 لاکھ 45 ہزار پاؤنڈ اور 2 لاکھ 70 ہزار پاؤنڈ میں خریدیں، تمام جائیدادوں کی مالیت مل کر بھی کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے پوش علاقوں میں ایک کنال کی قیمت سے کم ہے۔


جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے جواب میں اعتراض اُٹھایا کہ کونسل کا جواب اٹارنی جنرل کی جانب سے جمع کرانا درست نہیں، یہ آئین کی خلاف ورزی ہے، اٹارنی جنرل صرف وفاقی حکومت کو قانونی معاملات میں مشورے دیتا ہے نا کہ نجی پریکٹس کرے۔

واضح رہے کہ اٹارنی جنرل انور منصور خان نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرایا تھا کہ برطانیہ میں تین جائیدادوں کےاصل مالک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہیں اور بچے ان کے بے نامی دار ہیں۔


سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس کے حوالے سےاٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جائیداد خریدنے کے ذرائع بتانے سے گریز کر رہے ہیں‘جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے الزامات محض مفروضوں پر مبنی ہیں، ان کی سپریم جوڈیشل کونسل کیخلاف درخواست قابل سماعت نہیں جبکہ بطور اٹارنی جنرل سپریم جوڈیشل کونسل کی معاونت کرنا آئینی ذمہ داری ہے۔


عدالتی ماہرین کیا کہتے ہیں؟ 

سینیئر عدالتی صحافی عبدالقیوم صدیقی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے آج کی سماعت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ دس رُکنی بینچ میں سے آج چار ججز نے دلائل میں کافی دلچسپی لی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس منصور شاہ، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس منیب اختر اور جسٹس مقبول باقر آج کے فُل کورٹ بینچ میں کافی فعال نظر آئے۔


سینئر عدالتی صحافی ناصر اقبال نے تبصرہ کیا کہ آج کا بینچ ایک ہی مائنڈ سیٹ کے ساتھ نظر نہیں آیا۔ بلکہ ججز کی مختلف آرا سامنے آئی جس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ یہ درخواست خارج نہیں ہو گی بلکہ کوئی فیصلہ آئے گا اور اگر ایک دو ججز بھی اِدھر اُدھر ہو گئے تو قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں فیصلہ ہو جائے گا، کیونکہ منیر اے ملک نے دلائل بہت مدلل دیے ہیں جو ججز کا ذہن بنانے میں مدد کرے گا۔‘


معاملے پر وکیل حامد خان نے کہا کہ انہیں جوڈیشل کونسل کی کارروائی پہ اعتماد نہیں تھا لیکن چونکہ یہ فُل کورٹ ہے اور کُھلی عدالت بھی ہے اس لیے پُر امید ہیں کہ ججز پر کوئی بیرونی دباؤ نہیں آئے گا۔‘

مزیدخبریں