تفصیلات کے مطابق ایک وفاقی وزیر نے بتایا کہ وزیر اعظم کو سمری موصول ہوئی تھی جس میں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کے عہدے کے لیے نام تھے۔ تاہم ابھی تک وزیراعظم آفس کی طرف سے کسی بھی نام کی منظوری نہیں دی گئی۔
دوسری جانب حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے وزیر اعظم سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملاقات اور اس کے بعد کابینہ میں وزیر اعظم کے ریمارکس کی تفصیلات بتانے پر اپنے رکن قومی اسمبلی عامر ڈوگر کی سرزنش کی۔ اطلاعات کے مطابق انہیں پارٹی کی جانب سے شوکاز نوٹس موصول ہوا ہے۔
نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور عامر ڈوگر کی جانب سے نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے معاملے کے حوالے سے اہم بیان جاری کیا گیا تھا۔عامر ڈوگر کا بتانا تھا کہ وزیراعظم افغان صورتحال کی وجہ سے جنرل فیض حمید کو مزید کچھ ماہ ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر رکھنا چاہتے تھے، گزشتہ رات وزیراعظم اور آرمی چیف ملاقات میں تمام چیزیں اچھے ماحول میں سیٹل ہوئیں۔
ادھر سینئیر صحافی و تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا کہ میری معلومات کے مطابق ہو گا وہی جو پہلے سے طے کر لیا گیا ہے۔ عمران خان نہ تو نواز شریف بن سکتے ہیں نہ ہی اُن کی شخصیت اُن کی طرح کی ہے۔ نہ ہی عمران خان کی پارٹی کی ساخت مسلم لیگ ن کی طرح کی ہے۔ اس وقت عمران خان نواز شریف دکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ اگر نواز شریف بننے کے چکر میں خود نواز شریف کا یہ حال ہو گیا تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ عمران خان کا کیا ہو گا۔ سلیم صافی نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف اور عمران خان کی شخصیات میں فرق ہے۔ عمران خان نفسیاتی جنگ لڑتے تو ہیں اور نفسیاتی دباؤ بھی ڈالتے ہیں لیکن جہاں تک میرا خیال ہے، جس ادارے کے ساتھ یہ معاملہ ہے ، اُن کے سامنے ایک خاص حد تک کھڑا ہونے کی عمران خان صلاحیت نہیں رکھتے۔
اس سے قبل وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ٹوئٹ کیا تھا کہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر پر وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان مشاورت مکمل ہو چکی ہے اور تقرر کا عمل شروع ہو چکا ہے۔
قبل ازیں وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بارے میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے بیان دیا تھا کہ وزیر اعظم آئین کے مطابق نئے ڈی جی آئی ایس آئی کا تقرر چاہتے ہیں۔
تاہم دفاعی معاملات کے ماہرین کے مطابق تعیناتی کا طریقہ کار آئین اور آرمی ایکٹ میں درج نہیں اور ماضی میں تمام تعیناتیاں اس روایت کے مطابق کی گئیں جس کے تحت آرمی چیف وزیراعظم کو تین نام تجویز کرتے ہیں اور وہ اس کے بعد حتمی فیصلہ کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ 'آئی ایس پی آر' نے اعلان کیا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو آئی ایس آئی کا نیا سربراہ جبکہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو کور کمانڈر پشاور تعینات کیا گیا ہے۔
چونکہ دفتر وزیر اعظم کی جانب سے آئندہ چند روز تک مذکورہ تعیناتی کا نوٹی فکیشن جاری نہیں کیا گیا تھا اس لیے وفاقی دارالحکومت میں قیاس آرائیاں پھیلیں اور حکومت اس معاملے پر خاموشی توڑنے پر مجبور ہوگئی۔
اس کے بعد وزیر اطلاعات نے میڈیا کو بتایا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان اور چیف آف آرمی اسٹاف کے درمیان رات گئے ایک طویل ملاقات ہوئی جس کے بعد وزیر اعظم نے اس معاملے پر کابینہ کو اعتماد میں لیا۔
دریں اثنا عامر ڈوگر نے انکشاف کیا تھا کہ وزیر اعظم نے وفاقی کابینہ کو کہا کہ انہوں نے آرمی چیف کو بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہمسایہ ملک افغانستان کی نازک صورتحال کی وجہ سے موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی کچھ عرصے تک برقرار رہیں۔