تاہم تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا ہے۔ عدالت نے استغاثہ کے گواہوں کو 20 اکتوبر کو اگلی سماعت پر طلب کر لیا ہے۔
اس سے قبل 6 اکتوبر کو جج عطا محمد ربانی نے ملزموں پر فرد جرم عائد کرنے کا معاملہ موخر کرتے ہوئے استغاثہ کو حکم دیا ہے کہ وہ ملزمان کے وکلا کو تمام شہادتوں اور بیانات کی تفصیلات فوری طور پر فراہم کرے۔
یاد رہے کہ رواں سال 20 جولائی کو 28 سالہ نور مقدم کی لاش اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون فور کے ایک گھر سے برآمد ہوئی تھی۔ ایک بڑے کاروباری خاندان سے تعلق رکھنے والے ظاہر جعفر کو بھی اس گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔
نور مقدم قتل کیس میں ظاہر جعفر مرکزی ملزم ہیں جبکہ ان کے والدین اور تین گھریلو ملازمین پر جرم کی اعانت اور حقائق چھپانے کے الزامات لگائے گئے ہیں اور وہ زیر حراست ہیں۔
آج سماعت کے دوران مرکزی ملزم ظاہر جعفر وکیل کے دلائل میں بار بار مداخلت کرتے رہے اور عدالت سے کئی مرتبہ بولنے کی اجازی بھی طلب کی۔ تاہم عدالت سے اجازت نہ ملنے کے باوجود بھی ان کی مداخلت جاری رہی۔
شروع میں ملزم قتل سے انکار کرتا رہا، تاہم سی سی ٹی وی کیمروں کی ویڈیو مل جانے کے بعد حقائق آشکار ہوئے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج ملنے کے بعد مذکورہ گھر کے دو ملازمین کو بھی گرفتار کیا گیا، جنہوں نے نور مقدم کو گھر کے ٹیرس سے چھلانگ لگا کر بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا، لیکن پولیس کو اس متعلق اطلاع نہیں دی۔
بعد ازاں ظاہر جعفر کے والدین کو بھی گرفتار کیا گیا، جس سے تھراپی ورکس نامی ادارے کا نام بھی سامنے آیا۔ مرکزی ملزم کے والدین کو جب اپنے بیٹے کے ہاتھوں نور مقدم کے مبینہ قتل کی اطلاع ملی تو انہوں نے تھراپی ورکس کے اہلکاروں کو مذکورہ گھر بھیجا تھا، جہاں ملزم نے ان پر حملہ کر کے ایک اہلکار کو زخمی بھی کیا۔
واضح رہے کہ تھراپی ورکس کے مالک اور چھ ملازمین ضمانت پر رہا ہیں، جس کے خلاف نور مقدم کے والد شوکت مقدم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے۔