آج سے 20 سال قبل جب میں نے کراچی یونیورسٹی میں شعبہ جغرافیہ میں داخلہ لیا تو اس سے قبل موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کوئی بات چیت سننے کو نہیں ملتی تھی مگر یونیورسٹی کے چار سال میں ہم نے بارہا موسم اور اس سے جڑے عوامل کو نہ صرف سنا اور سمجھا بلکہ اس پر سیر حاصل بحث بھی کی بلکہ خاص طور پرایک کورس ہم نے 'موسمیات' پڑھا تھا جس میں ہم نے درجہ حرارت، نمی، بارشیں، بادلوں کا بننا، حرارت کے جزیرے، گرین ہاؤس گیسیں، اوزون سے لے کر عالمی درجہ حرارت میں تبدیلی سے متعلق پڑھا۔ اس وقت سب سے زیادہ بارشیں آسام میں ہوا کرتی تھیں لیکن یہ تمام بات چیت باقاعدہ طور پر موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے نہیں ہوا کرتی تھی بلکہ ماحول اور موسم کو ملا کر مجموعی بات کی جاتی تھی۔ ہاں ہم نے ایل نینو اور لا نینا کی بات بھی کی مگر اسے بھی موسمیاتی تبدیلی کے تحت نہیں سمجھا اور پاکستان میں ابھی تک عام لوگ اس سے ناواقف ہیں۔ اس میں کچھ باتیں تو پہلے پہل سمجھ ہی میں نہیں آتی تھیں پھر آپس کی گفتگو اور طویل مباحثوں کے بعد چیدہ چیدہ باتیں سمجھ میں آنا شروع ہوئیں مگر اس وقت تک ان تمام باتوں کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی تھی بلکہ انہیں مستقبل بعید کے معاملات سمجھا جاتا تھا ۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ کس تیزی سے دنیا کا موسم بدل گیا۔
اس بدلتے موسم کے اثرات سے متاثر ہونے والوں میں پاکستان صف اول میں شمار ہوتا ہے۔ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس 2021 کے مطابق پاکستان دنیا کا آٹھواں سب سے زیادہ غیر محفوظ ملک ہے اور اس کا جنوبی 'صوبہ سندھ' موسمیاتی تبدیلی کے لیے جنوبی ایشیا کے 'مرکز' میں سے ایک ہے۔ جبکہ پاکستان کے کاربن کے اخراج کا دیگر ممالک سے موازنہ کیا جائے تو یہ مقدار کچھ بھی نہیں کیونکہ نہ ہم نے اتنے بڑے پیمانے پر کوئلہ یا ایندھن استعمال کیا جیسا کہ چین یا امریکہ اور دیگر ملکوں نے کیا اور نہ پاکستان میں اتنی گاڑیاں اور کارخانے ہیں جن سے نکلنے والا دھواں موسمیاتی تبدیلی کا سبب بنے تو مجموعی طور پر ہمارا کردار نہیں مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہماری ذمہ داری ہی ختم ہو گئی کیونکہ مقامی ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ، حساسیت اور ان تمام معاملات سے نمٹنے سے متعلق وسائل کو مدنظر رکھا جائے تو پاکستان پہلے نمبر پر نظر آئے گا۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں 2015 کی ہیٹ ویو (شدید گرمی کی لہر) مقامی کارروائی کے لیے ایک محرک تھی، جس کے ساتھ ہیٹ ویو منصوبہ سازوں، پالیسی سازوں اور زمینی امدادی کاموں میں مصروف بہت سی این جی اوز کے لیے موسمیاتی نظم و نسق کا ایک مقصد بن گئی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ شہری انتظامیہ اور پالیسی سازوں کی جانب سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے خلاف کی جانے والی کارروائیاں دراصل اعلی سطح پر ہونے والے فیصلوں سے جڑی ہوتی ہیں اور غیر مصدقہ مفروضوں پر مبنی ہوتی ہیں اور ان میں شہری کمزور طبقے کے گرمی اور درجہ حرارت سے متعلق خدشات اور خطرات کو شامل نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا موسمی واقعات کے لیے اس طرح کا یک جہتی نقطہ نظر ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہروں میں گرمی کے انتظام، موافقت اور تخفیف کی موجودہ حکمت عملی درحقیقت انسانی زندگی کے تحفظ میں ناکام ہے اور ابھی ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں اور اس سے وابستہ مظاہر کو مزید سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انتہائی گرمی، شہری سیلاب، دریائی سیلاب اور مقامی موسم کس طرح شہری منصوبہ بندی، بنیادی ڈھانچے کی عدم مساوات سے جڑ کر اورشہریوں کی کمزوری اور خطرات میں اضافہ کرتے ہیں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق 'موافقت' کا نفاذ کریں تو ہمیں اس ضمن میں چند چیزوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جیسا کہ حکمرانی کا نظام، سائنسی علم کو بروئے کار لانا اور جدت اختیار کرنا، اپنے طرز زندگی میں تبدیلیاں لانا اور طرز عمل کے عوامل کو سمجھنا، اخراجات کو سنبھالنا اور ترجیح طے کرنا کہ پیسے کہاں لگائے جائیں، نقصان سے تحفظ کی حکمت عملی، سماجی تحفظ اور سب سے بڑھ کر تعلیم اور صلاحیت کی ترقی وغیرہ۔
حکمرانی کے نظام میں عالمی اور قومی سطح کے ساتھ ساتھ علاقائی پیمانے پر معاملات کو نہ صرف اہمیت دی جائے بلکہ انہیں حل کی طرف لے جایا جائے۔ یہ بھی ضروری امر ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق فیصلہ سازی کے نظام میں متنوع اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔ حکمرانی کے نظام کے نچلے درجے پر انحصار کرنا ضروری ہے جسے پائیدار ترقی کے اہداف کی بھی حمایت حاصل ہے۔ ہمیشہ ترقیاتی اور ماحولیاتی مشترکہ فوائد پر زور دیا جائے، ساتھ ہی پسماندگی اور سماجی سطح بندی کے متنوع تجربات کی پہچان اور حکمرانی سے متعلق سرگرمیوں میں شرکت پر ان کے اثرات کو بھی مدنظر رکھا جائے اور سب سے بڑھ کر اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی اور مقامی اداروں کی زیادہ سے زیادہ مضبوطی کے بغیر ہم موسمیاتی تبدیلی سے موافقت کے نفاذ کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکتے۔
پاکستان میں مویشی پالنے والے کاشت کاروں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مویشیوں کی بیمہ کی خریداری اور چارے کے لیے زمینی رقبے میں اضافہ جیسے خطرات سے نمٹنے کے طریقہ کار مویشیوں کو بیچنے اور دوسری جگہ ہجرت کرنے کے مقابلے میں کہیں زیادہ فائدہ مند پالیسی کے اختیارات ہیں لیکن ہمیں اپنے طرز حکمرانی پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ متعلقہ طور پر، موافقت کے اقدامات کے ساتھ نقل مکانی کا تعلق سیاق و سباق سے مخصوص ہے اور اس میں کمزور زرعی گروہوں کے سماجی و اقتصادی حالات سے متعلق متعدد عوامل شامل ہیں۔2017 میں کی گئی ایک تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ غریب زرعی برادریاں موسمیاتی تبدیلیوں کے سب سے زیادہ متاثرین میں شامل ہیں اور وہ کسان جو کم عمر، بہتر تعلیم یافتہ، مشترکہ خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور زیادہ زمینوں کے مالک ہیں وہ جلد اور بہتر طریقے سے موافقت کو اپناتے ہیں۔
تکنیکی ترقی نے جہاں دیگر ایشیائی ممالک کی آب و ہوا سے متعلق خطرات کی نگرانی اور تیاری کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے وہیں پاکستان میں بھی جدید تکینک کا استعمال بڑھا ہے اور اب جیوگرافیکل انفارمیشن سسٹم اور ریموٹ سینسنگ جیسی جدید تکینک کو آب و ہوا سے متعلق آفات کے خطرات کا اندازہ لگانے اور ان کو کم کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے لیکن اس کام کو بڑے پیمانے پر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو اس جدید تکینک کے تربیتی کورسز کرانے ہوں گے اور تعلیمی نصاب میں اسے لازمی مضمون قرار دینا ہوگا خاص طور سے سماجی علوم اور تحقیق کرنے والوں کے لیے یہ ضروری ہے اس تربیت کے بعد ان جدید تکینک سےمختلف قسم کے خطرات کے ممکنہ اثرات کو نقشوں کا استعمال کرتے ہوئے بیان کیا جاسکتا ہے جس سے مقامی آبادیوں کو خطرات کو سمجھنے اور انخلا کے مناسب علاقے تلاش کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
اپنے طرز زندگی میں تبدیلیاں اور طرز عمل کے عوامل کو سمجھنے کی بات کی جائے تو یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ پہلے موسمیاتی تبدیلی کے محرکات اور عمل کو سمجھے اور اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرے کہ اس کا طرز زندگی کیسا ہو جو موافقت کی حمایت کرے۔ کیوں کہ بعض اوقات سماجی ثقافتی عوامل یہ طے کرتے ہیں کہ لوگ کس طرح موافقت کریں پھر اکثر خطرات اور غیر یقینی صورت حال کا احساس انہیں موافقت پر مجبور کرتا ہے۔ ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے تاثرات اور مواقفت کا ردعمل موسمیاتی تبدیلیوں کی کارروائی اور طرز عمل کو کس طرح تشکیل دیتے ہیں اور اس کے لیے سماجی علوم اور ادب کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، خاص طور پر نفسیات، رویے اور معاشیات کا تعلق اور خطرے کے ادراک کے مطالعے سے موسمیاتی تبدیلی اور موافقت اور برادریوں کے طرز عمل کو سمجھا جا سکتا ہے گو یہ ایک مشکل کام ہے کیونکہ ہر برادری معاشی، ثقافتی اور معاشرتی اعتبار سے مختلف ہے مگر کچھ قدریں ضرور مشترک مل جاتی ہیں جیسے ساحلی پٹی پر رہنے والی تمام برادریاں، شہروں کے مرکز میں رہنے والے۔ لیکن ہمیں بہرصورت موافقت کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی ورنہ ہمارے پاس نہ وسائل ہیں اور نہ قوت کہ ان موسمیاتی خطرات سے نمٹ سکیں گویا موافقت کی آگاہی اور نفاذ وقت کی ضرورت ہے۔