ضلع کیچ میں علاج کی ناکافی سہولیات مریضوں کی جان لے رہی ہیں

ضلع کیچ کی تحصیل تمپ کا گاؤں نزر آباد جو میونسپل کمیٹی تمپ میں شامل ہے، وہاں سرکاری سطح پر ایک رورل ہیلتھ سینٹر قائم کیا گیا ہے مگر علاقہ کے لوگوں کے مطابق اس میں صحت کی بنیادی سہولیات تک موجود نہیں اور نا ہی میڈیکل افسران ڈیوٹی دیتے ہیں۔

03:14 PM, 14 Oct, 2024

اسد بلوچ

ضلع کیچ کے دیہی علاقے میں ماں اور بچہ ڈلیوری کے دوران علاج کی مناسب سہولت نہ ملنے پر جاں بحق ہو گئے۔

تحصیل تمپ کے گاؤں نزر آباد سے تعلق رکھنے والی 20 سالہ نجیبہ نامی خاتون زوجہ ساجد علی کو جمعہ کی شام ضلع کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ان کے پیٹ سے سرجری کے بعد دو دنوں کا مردہ بچہ نکالا گیا۔

ٹیچنگ اسپتال تربت کے سینیئر میڈیکل آفیسر ڈاکٹر محب اللہ نے بتایا کہ جب خاتون کو ٹیچنگ اسپتال تربت لایا گیا تب ان کی حالت خراب تھی اور اسے مسلسل الٹیاں آ رہی تھیں۔ ان کے مطابق میڈیکل ٹیسٹ لینے کے بعد خاتون کے پیٹ میں بچہ مردہ حالت میں پایا گیا جسے فوری سرجری کرکے نکال دیا گیا اور خاتون کو انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کیا گیا۔

ضلع کیچ کی تحصیل تمپ کا گاؤں نزر آباد جو میونسپل کمیٹی تمپ میں شامل ہے، وہاں سرکاری سطح پر ایک رورل ہیلتھ سینٹر قائم کیا گیا ہے مگر علاقہ کے لوگوں کے مطابق اس میں صحت کی بنیادی سہولیات تک موجود نہیں اور نا ہی میڈیکل افسران ڈیوٹی دیتے ہیں۔

ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کیچ ڈاکٹر رؤف بلوچ آر ایچ سی نزر آباد میں فیمیل میڈیکل افسر کی موجودگی نہ ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس بنیادی صحت کے مرکز میں دیگر تمام سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ ان کے مطابق خاتون کی وفات اسپتال عملہ کی غفلت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کی ذمہ دار فیملی ہے جنہوں نے خاتون کو بروقت اسپتال پہنچانے کے بجائے دو دنوں تک روک کر دیسی علاج کرایا۔ تاہم اسد تگرانی نامی ایک مقامی سماجی کارکن کے بقول آر ایچ سی نزر آباد میں صحت کی کوئی سہولت موجود نہیں ہے، اس لیے مریضہ کو آر ایچ سی علاج کے لیے لے جانا غیر مفید تھا۔

نجیبہ نامی خاتون کے قریبی رشتہ دار اسد اللہ نے تصدیق کی کہ انہیں دو دنوں سے مسلسل الٹیاں آ رہی تھیں، چونکہ علاقہ کے آر ایچ سی میں میڈیکل آفیسر یا خاتون ڈاکٹر موجود نہیں تھی اس لیے الٹی کو ایک عام بیماری سمجھ کر مقامی سطح پر ان کا علاج کیا گیا۔

ڈاکٹر محب اللہ کے مطابق جب خاتون کو ٹیچنگ اسپتال تربت لایا گیا تب وہ 8 ماہ کی حاملہ تھیں اور دو دن سے ان کا بچہ پیٹ ہی میں وفات پا چکا تھا۔ بچہ دانی میں زہر اور انفیکشن پھیلنے سے خاتون کی حالت سنگین تھی۔

ڈی ایچ او ڈاکٹر رؤف کے مطابق ضلع کیچ وسیع رقبہ پر پھیلا ہوا کثیر آبادی پر مشتمل علاقہ ہے اس لیے ہر علاقہ میں میڈیکل ڈاکٹر کی موجودگی ممکن نہیں ہے۔ ان کے مطابق مذکورہ خاتون کو آپریشن کے بعد آئی سی یو منتقل کیا گیا مگر ان کی فیملی نے زبردستی علاج کے لیے اسے کراچی لے جانے کی کوشش کی جس کے باعث راستے میں ان کی وفات ہو گئی۔

میونسپل کمیٹی تمپ کے وائس چیئرمین مسلم یعقوب کے مطابق نزر آباد تحصیل تمپ کا سب سے بڑا گاؤں اور میونسپل کمیٹی کا حصہ ہے، یہاں آر ایچ سی موجود ہے مگر علاج کی کوئی سہولت دستیاب نہیں اور نا ہی کوئی میڈیکل افسر موجود ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نجیبہ کی موت کا ذمہ دار فیملی کو ٹھہرانا غلط ہے۔

ضلع کیچ کی تحصیل تمپ میں صوبائی اسمبلی کے دو ارکان، ایک مخصوص نشست پر خاتون رکن اور قومی اسمبلی کا ایک ممبر موجود ہے مگر اس کے باوجود اس تحصیل میں صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات کی کمی ہمیشہ ایک سوال رہا ہے۔

عوامی حلقوں نے ڈلیوری کیس میں زچہ و بچہ کی موت پر منتخب اراکین اسمبلی کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے ہیں۔ اس معاملے پر دو دنوں سے سوشل میڈیا پر محکمہ صحت اور اراکین اسمبلی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر اس واقعہ کا ذمہ دار محکمہ صحت کو قرار دیا جا رہا ہے۔

مزیدخبریں