پنجاب کالج میں طالبہ کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی؛ کیا حقائق چھپائے جا رہے ہیں؟

ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران کے مطابق جنسی زیادتی کے مقدمہ میں ریاست کیسے مدعی بن سکتی ہے؟ مقدمہ درج کروانے کے لئے متاثرہ فریق موجود ہونا چاہیے، جیسے ہی متاثرہ بچی کی تصدیق ہو گی پولیس فوراً مقدمہ درج کر لے گی۔

07:59 PM, 14 Oct, 2024

منیر باجوہ

لاہور میں پنجاب کالج گلبرگ کیمپس کے طلبہ کے مطابق 11 اکتوبر کو ایک طالبہ کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی کا واقعہ پیش آیا جس کا انکشاف طالبہ کی عدم حاضری پر استانی کی جانب سے کلاس کے بچوں سے اس طالبہ کی غیر حاضری کی وجہ پوچھنے پر ہوا۔ کلاس کی طالبات نے لڑکی کے والدین سے رابطہ کر کے غیر حاضر طالبہ کی بابت پوچھا تو اس کے والدین نے بتایا کہ ان کی بیٹی کو کالج کے گارڈ نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔ کالج کے طلبہ نے دعویٰ کیا کہ بس ڈرائیور نے طالبہ کو فیس کے بہانے تہہ خانے میں بلایا اور سکیورٹی گارڈ نے مبینہ زیادتی کی۔ طلبہ کا مؤقف ہے کہ متاثرہ طالبہ کی حالت خراب ہونے پر اسے دوپٹے میں ڈھانپ کر کالج کی حدود سے باہر لے جایا گیا۔

واقعہ کا علم ہونے پر کالج کے طلبہ و طالبات نے اس واقعہ کو سوشل میڈیا اور اپنے واٹس ایپ اکاؤنٹس کے ذریعے سٹوریز شیئر کرنا شروع کر دیں اور آج طلبہ نے پنجاب کالج کے تمام کیمپسز کے باہر احتجاج کی کال دیتے ہوئے سکیورٹی گارڈ کے خلاف مقدمہ درج کر کے اسے گرفتار کرنے اور کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا۔

  وزیر تعلیم پنجاب اور پولیس حکام کے بیانات میں تضاد کیوں ہے؟

وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ پنجاب کالج انتظامیہ کو کہہ دیا ہے طلبہ نے اپنی بہنوں کے لئے آواز اٹھائی ہے اور یہ ان کا حق ہے، اگر کسی طالب علم کی رجسٹریشن منسوخ ہوئی تو وہ بطور صوبائی وزیر تعلیم کارروائی کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی دانست کے مطابق پنجاب کالج گلبرگ کیمپس میں طالبہ سے جنسی زیادتی کا واقعہ پیش آیا ہے۔ وزیر تعلیم نے کہا کہ پنجاب کالج کی رجسٹریشن معطل کر دی گئی ہے اور بچوں کو دھمکانے والا پرنسپل نہیں رہے گا۔ یہ بچے مشتعل نہیں بلکہ یہ پڑھے لکھے بچے ہیں اور طلبہ نے اپنی بہنوں کے لئے آواز اٹھائی ہے اور وہ خود ان کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طلبہ کا مؤقف ہے کہ پرنسپل نے کالج کی سی سی ٹی وی فوٹیج ڈیلیٹ کر دی ہے تو وہ اس کی تحقیقات کروائیں گے۔ صوبائی ‏وزیرتعلیم رانا سکندر حیات خود احتجاج کرنے والے طلبہ کے پاس پہنچے اور انہیں یقین دہانی کروائی کہ وہ ان کے ساتھ ہیں۔

پنجاب کالج انتظامیہ کا طلبہ پر تشدد

پنجاب کالج گلبرگ کیمپس کے باہر آگ لگا کر احتجاج کرنے والے طلبہ نے اپنے خون سے بھرے کپڑے دکھاتے ہوئے کہا کہ کالج کے سکیورٹی گارڈ کو گرفتار کرنے اور کارروائی کرنے کے مطالبہ پر پرنسپل اور وائس پرنسپل نے ناصرف سکیورٹی گارڈز بلکہ پولیس سے بھی تشدد کا نشانہ بنوایا۔ طلبہ نے مزید الزام عائد کیا کہ پولیس اہلکار کالج کی حدود میں داخل ہوئے اور انہیں رائفل کے بٹ سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ پنجاب کالج مسلم ٹاؤن کیمپس میں احتجاج کرنے پر سکیورٹی گارڈ نے ایک طالب علم کو تشدد کا نشانہ بنایا جو اسپتال میں زندگی و موت کی جنگ لڑ رہا ہے۔

احتجاجی طلبہ اس بات کا دعویٰ بھی کرتے دکھائی دیے کہ مبینہ جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی طالبہ ہلاک ہو چکی ہے اور کالج انتظامیہ اور میاں عامر محمود کے ایما پر پولیس اہلکار ان پر تشدد کر رہے ہیں۔ طلبہ نے کہا کہ انہیں پہلے احتجاج سے روکنے کے لئے دھمکایا گیا کہ انہیں کالج سے نکال دیا جائے گا اور ان کا تعلیمی کریئر تباہ ہو جائے گا۔

طلبہ نے 'نیا دور' سے گفتگو میں اس خدشے کا اظہار کیا کہ اب چونکہ وہ اپنی بہن کو انصاف دلوانے کے لئے احتجاج کر رہے ہیں اور پولیس سمیت کالج انتظامیہ نے ان کی تصاویر بھی بنائی ہیں بلکہ ان کے ماسک اتروا کر تصاویر بنائی ہیں جس سے انہیں خدشہ ہے کہ اب ان کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں گے۔

ریسکیو 1122 کے مطابق پنجاب کالج کیمپس کے باہر طلبہ احتجاج میں اب تک 27 افراد کو ابتدائی طبی امداد فراہم کی جا چکی ہے۔

میڈیا میں مکمل خاموشی

طلبہ اس بات کا بھی شکوہ کر رہے تھے کہ قومی نشریاتی ادارے ان کے اس احتجاج اور طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی کے متعلق کوئی خبر نشر نہیں کر رہے، اس لئے وہ اپنی مدد آپ کے تحت اپنے اپنے سوشل میڈیا اور واٹس ایپ کے ذریعے متاثرہ طالبہ کیلئے انصاف کا تقاضا کر رہے ہیں۔

لاہور کے کسی اسپتال میں ایسا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا، ڈی آئی جی آپریشنز

ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران نے پریس کانفرنس میں کہا کہ پنجاب کالج میں طالبہ کے ساتھ زیادتی کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو پولیس نے فوری ایکشن لیا اور کالج انتظامیہ کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہ کر چند روز سے غیر حاضر رہنے والے سکیورٹی گارڈ کو سرگودھا سے حراست میں لے کر لایا گیا اور ابتدائی تحقیقات کی گئی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے لاہور کے تمام اسپتالوں میں بھی چیک کیا ہے کہ گذشتہ چند روز سے اگر کوئی جنسی زیادتی کا واقعہ پیش آیا ہو تو پولیس کو بتایا جائے جس پر معلومات اکٹھی کرنے کے بعد نتیجہ نکلا کہ ایسا کوئی واقعہ کسی اسپتال میں رپورٹ نہیں ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کالج کے کیمروں کا تمام ریکارڈ بھی چیک کیا گیا ہے اور ایسا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا۔

ڈی آئی جی آپریشنز نے کہا کہ طلبہ کے بیانات کی روشنی میں متاثرہ بچی کی تلاش کر رہے ہیں مگر ابھی کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر بھی لوگ مصدقہ اطلاع دے سکتے ہیں اور پولیس اطلاع دہندہ اور شکایت کنندہ بچی اور اس کے والدین کو مکمل تحفظ فراہم کرے گی۔ ڈی آئی جی فیصل کامران نے کہا کہ طلبہ کے احتجاج سے پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں اور پنجاب کالج انتظامیہ کی درخواست موصول ہونے پر کالج میں توڑ پھوڑ کرنے والے طلبہ کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے پنجاب کالج میں مبینہ جنسی زیادتی کے واقعہ کو اب تک کی تحقیقات کے مطابق محض ایک جھوٹی اطلاع قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی خبر پھیلانے پر سائبر کرائمز ایکٹ کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے۔

'ریاست کیسے مدعی بن سکتی ہے؟'

ڈی آئی جی آپریشنز نے سوالات کے جواب میں کہا کہ جنسی زیادتی کے مقدمہ میں ریاست کیسے مدعی بن سکتی ہے؟ مقدمہ درج کروانے کے لئے متاثرہ فریق ہمارے پاس موجود ہونا چاہئے، کل کو کیس عدالت میں جانا ہے اور مکمل ٹرائل چلنا ہے، اس لئے جیسے ہی متاثرہ بچی کی تصدیق ہوگی پولیس فوراً مقدمہ درج کر لے گی۔

ڈی آئی جی فیصل کامران نے پریس کانفرنس کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یہ معاملہ برطانوی فسادات جیسا لگتا ہے۔ جیسے وہاں پر ایک واقعہ ہوا اور سوشل میڈیا پر خبر وائرل ہوئی اور اب تک کسی مدعی کا سامنے نہ آنا ان خدشات کو جنم دے رہا ہے۔

ڈی آئی جی فیصل کامران اور ان کے ترجمان نے اس خبر کے نشر ہونے تک 'نیا دور' کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کہ پریس کانفرنس میں جس مشتبہ لڑکی جس کے بارے میں کہا گیا کہ وہ سیڑھیوں سے پھسل کر گری تھی اس کے والد کو بھی پولیس لائنز قلعہ گجر سنگھ میں بلایا گیا ہے اور وہ بھی میڈیا سے گفتگو کریں گے۔ اس لڑکی کے والد کو کیوں نہیں میڈیا پر لایا گیا اور لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی میں بھی طالبات کو ہراساں کئے جانے کا واقعہ آج ہی پیش آیا پر پولیس نے کوئی مؤقف نہیں دیا۔

لاہور کالج میں بھی طالبات کا ہراسانی کے خلاف احتجاج

لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی میں بھی طالبات ہراسانی کے واقعات پر احتجاج کرتی رہی تھیں اور ان کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں، پریس کانفرنس کے آخر میں ڈی آئی جی فیصل کامران سے لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی میں ہراسانی کے خلاف طالبات کے احتجاج اور پولیس کی موجودگی کی بابت سوال پوچھا گیا تو انہوں نے اس سوال کا جواب دیے بغیر پریس کانفرنس ختم کر دی۔

پنجاب کالج انتظامیہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ گلبرگ کیمپس میں کسی بھی طالبہ سے جنسی زیادتی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا جب کہ سوشل میڈیا پر طالبہ سے مبینہ جنسی زیادتی کے چلنے والے تمام دعوے جھوٹے ہیں۔ انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ مبینہ زیادتی کے واقعہ کی نہ تو کالج انتظامیہ اور نہ ہی پولیس کو کوئی شکایت موصول ہوئی ہے۔ کالج انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ طلبہ کے مکمل تحفظ کو یقینی بناتے ہیں اور والدین کو ہدایت کی کہ سوشل میڈیا پر چلنے والی جھوٹی اور غیر مصدقہ چینلز پر چلنے والی خبروں پر ہرگز یقین نہ کریں۔

طالبہ سے جنسی زیادتی کے مبینہ واقعہ اور طلبہ کے احتجاج کے بعد ڈائریکٹوریٹ آف پبلک انسٹرکشنز (کالجز) پنجاب کی طرف سے جاری سرٹیفیکیٹ کے مطابق پنجاب کالج برائے خواتین گلبرگ کیمپس کی رجسٹریشن معطل کر دی گئی ہے۔ ڈائریکٹر پبلک انسٹرکشنز (کالجز) پنجاب ڈاکٹر سید انصر اظہر کی جانب سے جاری سرٹیفیکیٹ میں کہا گیا ہے کہ کالج میں ایف اے، آئی سی ایس، آئی کوم، ایف ایس سی (پری میڈیکل اور پری انجینئرنگ) کی سال 2024-2022 کی رجسٹریشن تاحکم ثانی معطل کر دی گئی ہے۔

مزیدخبریں