جہاں اہلِ تشیع پر توہین کے پرچے درج ہو رہے ہیں اور ملک بھر میں ان کو اور ان کی عبادتگاہوں کو غیر محفوظ بنایا جا رہا ہے، ایسے میں ایک ممتاز شیعہ علمِ دین کی جانب سے انتہائی اہم تقریر کی گئی ہے جس میں انہوں نے اس سب کو ایک سوچی سمجھی سکیم کا حصہ قرار دیا ہے۔
ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شیعہ عالم شیخ محسن نجفی، سربراہ جامعہ الکوثر، کا کہنا تھا کہ جس شخص (آصف علوی) کی وجہ سے پورے ملک میں آگ لگی ہوئی ہے۔ اس پر شعیہ علما کی طرف سے بولنے پر پابندی تھی مگر ’آپ‘ نے وہ پابندی اٹھوا دی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ نے اس کو اسلام آباد خصوصی مجلس پر بلایا، آپ نے لاہور سے ماتمی دستے بلائے، لاکھوں روپے خرچ کر کے اس شخص کے لئے تقریب کا بندوبست کیا گیا۔ آپ نے اس کوبولنے کی آزادی دی اور جب وہ آپ کے مطلب کے مطابق بولا تو آپ نے اسے پاسپورٹ پکڑا کر باہر بھیج دیا۔
یاد رہے کہ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے آصف علوی کی جانب سے محرم کے دنوں میں اسلام آباد میں ایک مجلس کے دوران کچھ ایسی باتیں کہی گئی تھیں جو کہ نہ صرف اہلسنت کے یہاں قابلِ قبول نہیں بلکہ اہلِ تشیع کے نزدیک بھی معروف نہیں ہیں۔ نیا دور سے بات کرتے ہوئے ایک شیعہ کارکن کا کہنا تھا کہ آصف علوی محض ایک ذاکر ہے اور اس پر اہلِ تشیع کے علما کی جانب سے پابندی لگوائی گئی تھی کیونکہ یہ اپنی مجلسوں میں ایسی باتیں کرتا رہا تھا جو کہ نہ صرف اشتعال انگیز ہیں بلکہ اہلِ تشیع ان کو درست بھی نہیں سمجھتے۔ انہوں نے کہا کہ اہلِ تشیع کے بڑے علمائے دین میں حضرت ابوبکرؓ کے لئے ایک قدرے نرم گوشہ موجود ہے اور آصف علوی کے الفاظ کسی بھی طرح اہلِ تشیع کے عقائد کی ترجمانی نہیں کرتے۔
تاہم، اب محسن نجفی کی جانب سے یہ کہا جانا کہ اس شخص پر پابندی لگوائے جانے کے باوجود اس پر سے پابندی ہٹانا اور پھر اس کے لئے خصوصی طور پر لاکھوں روپے لگا کر مجلس کا اہتمام کروانا اور لاہور سے ماتمی دستوں کا بلوانا اور پھر اس کو پاسپورٹ پکڑا کر ملک سے باہر بھیج دینا کسی نامعلوم ’آپ‘ کا کیا دھرا ہے، اس سارے معاملے کو ایک نیا رخ دے رہا ہے۔ یہاں واضح رہے کہ آصف علوی اس مجلس کے بعد جس میں اس نے متنازع کلمات ادا کیے، برطانیہ جا چکا ہے جب کہ پاکستان میں نہ صرف توہین کے الزامات لگ رہے ہیں بلکہ شیعہ مخالف احتجاجی مظاہرے بھی ہو رہے ہیں۔ 14 ستمبر کو متحدہ سنی کونسل نامی ایک تنظیم کی جانب سے اسلام آباد دھرنے کی کال بھی دی گئی تھی جو کہ اب 17 ستمبر تک کے لئے مؤخر کر دی گئی ہے۔ اس تمام صورتحال میں ایک نامور شیعہ عالم کا آصف علوی کے بیانات سے خود کو علیحدہ کرنا اور واضح طور پر نہ صرف یہ اعلان کرنا کہ انہوں نے تو اس شخص پر پابندی گوائی تھی، بلکہ ساتھ یہ بھی کہنا کہ اس پر سے کسی نے پابندی ہٹائی اور پھر اس نے ان ہی لوگوں کی مرضی کے مطابق کچھ بیانات دیے اور پھر کچھ لوگوں نے اس کو پاسپورٹ دے کر ملک سے بھگا دیا، اس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ اہل تشیع کے علما کے نزدیک اس میں کوئی سازش کا عنصر شامل ہے۔
پاکستان میں شیعہ سنی فسادات ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ 80 اور خصوصاً 90 کی دہائی میں یہ معمول کی بات تھی اور گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں اہل تشیع ذاکرین کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کو بھی بڑی تعداد میں ٹارگٹ کیا جاتا رہا ہے۔ کوئٹہ میں ہزارہ ٹاؤن اور اس کی بدنصیب علمدار روڈ پر آئے روز اس قسم کے حادثات دیکھنے میں آتے ہیں کہ اہل تشیع افراد کو گولیاں ماری جاتی ہیں۔ لیکن مظاہرے اور پولیس کیسز حالیہ عرصے کے لحاظ سے غیر معمولی ہیں اور ان میں شیعہ علما کی جانب سے کسی نادیدہ قوت کے ملوث ہونے کا خدشہ ظاہر کیے جانے کے بعد حکومتی اور ریاستی اداروں کو چاہیے کہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات کروائی جائیں تاکہ ملک کو کسی ناگہانی مصیبت سے بچایا جا سکے۔