موٹر وے گینگ ریپ: 'خاتون نے 1000 کے پیٹرول کی ضرورت پولیس کو بتائی،ملزمان ڈیش بورڈ پر 1000 روپے رکھ گئے'

06:50 PM, 14 Sep, 2020

نیا دور
اینکر فریحہ ادریس نے موٹر وے گینگ ریپ پر ایک تھریڈ ٹویٹ کیا ہے اور اس کے ذریعے ایک نیا پینڈورا باکس کھول دیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات میں توجہ دینے کے لئے کچھ اور نکات بھی ہیں جن کی ہر پہلو سے تحقیق ہونی چاہیے۔ وہ کہتی ہیں کہ ریپ کا نشانہ بننے والی خاتون ایک پڑھی لکھی اور پر اعتماد خاتون تھیں جو کہ غلط وقت پر غلط جگہ موجود تھیں۔ ایف آئی آر کس نے کرائی وغیرہ وغیرہ جیسی گمراہ کن اور کیچڑ اچھالنے والی توڑی موڑی گئی تفصیلات سے گریز کرنا چاہیے۔

تفتیش کاروں کو اس امر کی بھی تفتیش کرنی چاہیے کہ حملہ آور خاتون کے اکیلے ہونے اور اس کی مدد کو کسی کے نہ آنے بارے میں اتنے پر اعتماد کیسے تھے؟ اور یہ کہ وہ کیسے جانتے تھے کہ ان کے پاس کتنا وقت ہے۔ کیونکہ سڑک کنارے ڈکیتی یا چوری تو ہو سکتی ہے ریپ کی گنجائش کم ہی ہے۔

انہوں نے واردات کے حوالے سے لکھا کہ خاتون ٹال پلازہ پر پہنچیں اور انہوں نے ٹول ٹیکس دیا۔ ساتھ ہی انہوں نے ٹول والے سے قریبی پٹرول پمپ کے حوالے سے استفسار کیا۔ وہ آگے بڑھ گئیں لیکن ان کی کار کچھ دیر بعد (واقعے کی جگہ پر) رک گئی۔ انہوں نے موٹر وے ہیلپ لائن پر کال کی۔ ہیلپ لائن پر ان سے مدد کرنے سے معذرت کی گئی لیکن انہیں لوکل نمبر دیا گیا۔ ہیلپ لائن پر موجود شخص نے وٹس ایپ پر ان سے رابطہ قائم کر کے ان کی لوکیشن حاصل کی۔ اور انہیں انتظار کرنے کو کہا۔

اس نمائندے نے انہیں یہ پوچھا کہ کتنی رقم کا پیٹرول انہیں درکار ہوگا۔ جس پر خاتون نے بتایا کہ انہیں ایک ہزار روپے کا پیٹرول چاہیے۔ اس خاتون نے 90 منٹ تک انتظار کیا۔ اڑھائی بجے کے قریب ایک ٹرک کار کے قریب پہنچا اور ٹرک کھڑا ہو گیا۔ اس میں سے ایک شخص اترا اور اس نے گاڑی کے قریب آ کر دیکھا اور اس کے اندر جھانکنا شروع کر دیا۔ خاتون اسی اثنا میں یہ سمجھنے کی کوشش کرتی رہی کہ یہ شخص کون ہے؟ اس شخص نے کار کو گھیرے میں لیے رکھا اور کچھ دیر کے بعد وہ ٹرک میں بیٹھا اور چلا گیا۔ یہ 2 بج کر 44 منٹ تھے۔ ٹرک کے جانے کے دو منٹ بعد ہی حملہ آور نمودار ہو گئے۔ 2 بج کر 47 منٹ پر خاتون کے اہل خانہ نے ان سے رابطہ کیا لیکن وہ جواب نہ دے سکی کیوں کہ اس وقت حملہ شروع ہو چکا تھا۔ شیشہ توڑنے کے دوران ان میں سے ایک شخص اپنا ہاتھ بھی تڑوا بیٹھا۔ وہ دونوں آپس میں پنجابی اور خاتون کے ساتھ اردو میں بات کر رہے تھے۔

ان کی عمریں 30 سے 35 سال کے لگ بھگ تھیں۔ جب خاتون پولیس کو ملی اور ان کا سامان تلاش کیا گیا تو عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ گاڑی کے ڈیش بورڈ پر 1000 روپے کا نوٹ اور مٹی سے اٹا ایک کارڈ پڑا تھا۔

بظاہر حملہ آور چاہتے تھے کہ خاتون گھر چلی جائے اور کسی کو نہ بتائے۔ لیکن کیا یہ محض اتفاق ہے کہ خاتون نے پولیس ہیلپ لائن کو 1000 روپے کے پیٹرول کا کہا تھا اور حملہ آور بھی جانتے تھے کہ اسے گھر پہنچنے کے لئے 1000 روپے کا پیٹرول درکار ہوگا؟ اسی لئے ان میں سے ایک جس کے پاس اس خاتون کا بیگ تھا وہ اسے رکھنے واپس آیا۔

اس تھریڈ سے کچھ نئے سوالات ابھرتے ہیں۔ اول تو یہ کہ یہ کیس اس وقت پاکستان کا سب سے زیادہ ہائی پروفائل کیس ہے۔ اس بارے میں تمام میڈیا چینلز پہلو بدل بدل کر رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ اس حوالےسے ابھی تک ٹرک کے جائے وقوعہ تک پہنچنے کی تو میڈیا رپورٹس موجود ہیں مگر ایک ہزار روپے کا ہونا، ٹول پلازے کی گفتگو وغیرہ کے حوالے سے تفصیلات منطر عام پر نہیں آئیں۔ تاہم، جن خیالات اور مفروضہ جات اور معلومات کے ساتھ فریحہ نے ایک منظر کھینچا ہے اس سے غالباً وہ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ اس واردات میں پولیس یا ایسے کچھ افراد شامل ہیں جن کے پاس خاتون کی پولیس کے ساتھ ہونے والی بات چیت تک رسائی حاصل تھی کیونکہ خاتون نے جو معلومات پولیس کو دیں ان کی روشنی میں ہی حملہ آوروں نے واردات کی۔

اب اگر سوشل میڈیا پر نظر دوڑائی جائے تو حکومتی پارٹی کے سپورٹرز اور کارکنان یہ تھیوری بنانے میں مصروف ہیں کہ دراصل یہ وردات پولیس کے اندر موجود سی سی پی او لاہور عمر شیخ کے خلاف پولیس افسران کی ملی بھگت سے ہوئی ہے جو کہ عمر شیخ کو ناکام کرنے کے لئے ہے۔

ویسے تو اس معاملے کی ہر طرح سے تحقیقات ہونی چاہئیں اور اگر فریحہ کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت ہے تو وہ سامنے لانا چاہیے تاہم یہ تاثر دینا کہ یہ سب عمر شیخ کی مخالفت میں ہوا انتہائی غلط ہے۔ یہ واقعہ اس لئے پیش آیا کہ موٹروے پر پولیس تعینات نہیں کی گئی تھی۔ اور پھر اس لئے کہ جب وہ خاتون مدد کے لئے پکار رہی تھی تو اس کی مدد کو آنے والوں نے اسے حدود کی منطق سنائی۔ اور پھر اس جلتی پر عمر شیخ نے تیل ڈالا کہ وہی خاتون اس سب کی ذمہ دار ہے اور پھر پوری حکومت نے ہی ان کی بات کو ہی سپورٹ کیا۔ یہ سب کچھ حکومت اور عمر شیخ کی غلطیاں ہی تھیں، انہیں کسی اور پر نہیں ڈالا جانا چاہیے۔
مزیدخبریں