پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ہونے والے حالیہ حملوں نے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو درپیش مشکلات پر توجہ مرکوز کروائی ہے۔ تحفظاتی خدشات میں اضافے اور منصوبے کے بدلتے ہوئے پہلوؤں کے باوجود دونوں ممالک اس منصوبے کو آگے بڑھانے کے لئے پرعزم ہیں۔
اگست کے آخر میں پاکستان کے پسماندہ صوبے بلوچستان میں متعدد حملوں میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہو ئے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری ( سی پیک) کے ذریعے خطے میں انفراسٹرکچر (سڑکوں، پلوں اور نکاسئی آب کا نظام) میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کے باوجود کئی دہائیوں پر محیط شورش مزید شدت اختیار کر گئی ہے، جس سے اِس وقت جاری اور مستقبل میں ہونے والی سرمایہ کاری کے استحکام کے بارے میں خدشات بڑھ رہے ہیں۔
بلوچستان میں ہونے والے حملے ایک جیسے انداز میں ہو رہے ہیں۔ کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی ( بی ایل اے) اور بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) جیسے علیحدگی پسند مسلح گروپ طویل عرصے سے پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور چینی شہریوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں اور ان پر صوبے کے وسائل کا استحصال کرنے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔ گوادر، جسے اکثر بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا اھم ترین اثاثہ کہا جاتا ہے، میں مقامی کمیونٹیز، خاص طور پر ماہی گیروں میں ناراضگی بڑھ رہی ہے، جنہوں نے اپنے شہر میں تعمیرات اور پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولیات کی کمی کے خلاف احتجاج کیا ہے۔
ان مشکلات کے باوجود اس بات کے بہت کم شواہد موجود ہیں کہ پاکستان یا چین سی پیک پر کام روک دیں گے کیونکہ دونوں ممالک کے پالیسی ساز اسے ‘گیم چینجر’ قرار دے رہے ہیں۔ تاہم، زمینی حقائق حکام کی طرف سے کئے جانے والے بلند و بالا دعووں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اگرچہ توانائی اور انفراسٹرکچر کے کچھ منصوبے مکمل ہو چکے ہیں، لیکن سی پیک وہ تجارتی راستہ نہیں بن سکا جتنی ا سکی تشہیر کی گئی تھی۔
توانائی کے منصوبوں کو رکاوٹوں کا سامنا ہے
توانائی ایک اہم مسئلہ ہے. گزشتہ سال پاکستان کو بڑے بلیک آؤٹ (بجلی کی معطلی) کا سامنا کرنا پڑا جو اس کے خستہ حال انفراسٹرکچر اور دہائیوں سے جاری ناکافی سرمایہ کاری کی علامت ہے۔ سی پیک کے توانائی کے بہت سے منصوبے، جیسے سوکی کناری ہائیڈرو پاور پروجیکٹ اور تھر میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والا پلانٹ، توانائی کی دائمی قلت کو دور کرنے کے لئے ڈیزائن کئے گئے تھے۔ انسٹی ٹیوٹ فار انرجی اکنامکس اینڈ فنانشل اینالسز (آئی ای ای ایف اے) میں انرجی فنانس کی ماہر حنیہ اِساد کے مطابق یہ مسائل مزید پلانٹس کی تعمیر سے کہیں زیادہ گہرے ہیں۔
حنیہ اِساد نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ “حکومت اِس وقت چینی آئی پی پیز (آزاد بجلی پیدا کرنے والوں) کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کی ادائیگیوں کے لئے ایک ارب ڈالر کی مقروض ہے۔” انہوں نے کہا کہ اگر کسی سرمایہ کار کی اتنی بڑی رقم پھنسی ہوئی ہے تو وہ اس کے بعد مزید سرمایہ کاری سے محتاط رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ” قومی گرڈ میں ضرورت سے زیادہ بجلی دستیاب ہونے کا مسئلہ بھی ہے، کیونکہ ملک کی سست اقتصادی اور صنعتی ترقی کی وجہ سے صارفین کی مانگ کم ہو رہی ہے۔ قومی گرڈ زیادہ بجلی نہیں لے سکتا، اس لئے بجلی کے منصوبوں میں نئی سرمایہ کاری کے زیادہ مواقع نہیں ہیں۔ مزید برآں، حکومت کے پاس نئے پاور پلانٹس میں سرمایہ کاری کرنے کی مالی صلاحیت نہیں ہے جو درآمد شدہ ایندھن پر انحصار کرتے ہیں، خاص طور پر پرانے طرز کے معاہدوں کے تحت جن کے استعمال سے قطع نظر مقررہ ادائیگیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان رکاوٹوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، اِساد کا استدلال ہے کہ “اِسی ایک ماڈل پر کوئی بھی نیا معاہدہ دونوں فریقوں کے لئے قابل عمل نہیں ہوگا۔”
سی پیک: مشکلات میں گِھرے صوبے میں اربوں روپے کا منصوبہ
شاید اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ سی پیک منصوبے ابھی تک بلوچستان کے عوام کو کوئی خاطرخواہ فائدہ نہیں پہنچا سکے ہیں۔ بلوچستان ایک ایسا صوبہ ہے جو پاکستان کی 44 فیصد زمین پر مشتمل ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے مطابق تمام صوبوں میں کثیر الجہتی غربت کے حوالے سے بلوچستان دوسرے نمبر پر ہے جس کی شرح 71.2 فیصد ہے۔ اس میں خواندگی کی شرح، خاص طور پر خواتین میں، سارے صوبوں کے مقابلے میں سب سے کم ہے،۔
سی پیک کے تحت توانائی کے دو منصوبے بلوچستان میں واقع ہیں اور دونوں مشکلات کا شکار ہیں۔ پہلا، گوادر میں 300 میگاواٹ کا درآمدی کوئلے پر مبنی بجلی کا منصوبہ ہے جو ابھی تک تعمیر نہیں ہوا، اور قیاس کیا جا رہا ہے کہ مالی مسائل کی وجہ سے یہ منصوبہ منسوخ کر دیا جائے گا۔ دوسری طرف، حب میں چائنا پاور حب جنریشن کمپنی کا 1320 میگاواٹ کوئلے سے چلنے والا پاور پلانٹ اکثر مالیاتی مشکلات کا شکار رہا ہے، جس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہوا ہے اور چینی سفیر کی جانب سے وزیر اعظم پاکستان سے مداخلت کی اپیلیں بھی کی گئی ہیں۔
بلوچستان میں دو سڑکوں کے منصوبوں میں سے خضدار- بسیمہ روڈ تو بن چکی ہے لیکن ڈیرہ اسماعیل خان سے ژوب تک دوسری سڑک ابھی تک مکمل نہیں ہوئی۔
بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کا نہایت اھم اور نمایاں منصوبہ، گوادر بندرگاہ، فعال تو ہے لیکن اب تک اھم اقتصادی سرگرمیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ ابھی تک اُس سرگرم ٹرانس شپمنٹ مرکز (ایک جہاز سے دوسرے جہاز پر سامان لادنا) سے بہت دور ہے جس کا حکام نے تصور کیا تھا کہ “جنوبی ایشیا کو دنیا سے جوڑے گا۔” گوادر ایئرپورٹ، اگرچہ اطلاعات کے مطابق مکمل ہے، لیکن مستقل تحفّظاتی خدشات کی وجہ سے ابھی تک اس کا افتتاح نہیں ہو سکا۔
‘ہم تخریب کاروں کو اسے سبوتاژ کرنے نہیں دیتے’
گزشتہ برسوں کے دوران کئی عسکریت پسند گروہوں نے ویڈیو پیغامات کے ذریعے چین کو پاکستانی علاقوں میں اپنے ترقیاتی منصوبوں کو جاری رکھنے کے خلاف بار بار دھمکیاں دی ہیں۔ اِن گروہوں نے متعدد حملے کئے ہیں جن میں چینی انجینئرز پر حملے، کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ اور تین چینی اساتذہ کا قتل شامل ہے۔
اس کے جواب میں پاکستان اور چین دونوں نے انسدادِ دہشت گردی اور مسلسل ترقی کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے ڈائیلاگ ارتھ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “چینی سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور وہ ھمارا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ یقیناً، اُنہیں تحفّظاتی خدشات ہیں اور یہ خدشات صرف اُن کے لئے مالیاتی سرمایہ کاری کے حوالے سے ہی نہیں ہے بلکہ اِس میں وہ چینی کارکن بھی شامل ہیں جو خنجراب سے گوادر تک یہاں کام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ چین اور پاکستان دونوں کے لئے ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔”
پاکستان کے وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے بھی اِسی طرح کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “چینی سمجھتے ہیں کہ اِن واقعات کا پس منظر کیا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اِن واقعات کے پیچھے موجود قوتیں سی پیک کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ہم اِن تخریب کاروں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔”
تاہم ماہرِ سلامتی عامر رانا کے مطابق عسکریت پسندوں کے مسلسل حملوں نے سی پیک منصوبوں پر دباؤ میں اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان کے آرمی چیف، وزیر اعظم اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان حالیہ اعلیٰ سطحی ملاقات میں سلامتی کو “سب سے اہم موضوع” قرار دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ “وفد نے چین سے واپس آ کر ایک فوجی آپریشن ‘عزمِ استحکام’ کا اعلان کیا، جو بظاہر افغانستان کے ردعمل میں تھا لیکن یہ بلوچستان کو محفوظ بنانے میں چینی دلچسپی کی بھی عکاسی کرتا ہے جہاں خطرہ سب سے زیادہ ہے اور حملے اکثر ہوتے رہتے ہیں۔”
رانا نے مزید کہا کہ بلوچستان میں شورش اور اس کے نتیجے میں ہونے والے عسکریت پسندوں کے حملوں کو حل کرنا آسان نہیں ہے اِس لئے کہ “یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے کیونکہ اِس میں صرف دہشت گردی کا خطرہ نہیں ہے بلکہ اس میں سیاسی عناصر بھی شامل ہیں۔” اُن کا کہنا ہے کہ اِس حوالے سے پاکستان کا ردعمل مکمل نہیں ہے کیونکہ “اِس میں سیاسی مسائل کو حل نہیں کیا جاتا۔”
‘سمارٹ سی پیک’ کی طرف رجحان
چین نے اِن مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں سرمایہ کاری کے طریقہ کار کو تبدیل کیا ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سابق سیکرٹری جنرل شاہد خاقان عباسی جو اپریل 2022 سے اگست 2023 تک ملک کی حکومت میں شامل رہے، نے اشارہ کیا کہ چین نے بڑے پیمانے پر اِنفرااسٹرکچر (بنیادی ڈھانچے) کے منصوبوں سے دوری اختیار کی ہے جن کے طویل مدتی فوائد ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قبل سی پیک کے عمل میں ممکنہ منصوبوں اور سرمایہ کاری کی مشترکہ نشاندہی، فزیبلٹی اور مناسب جانچ پڑتال کی جاتی تھی۔ لیکن پھر چینی توجہ فوری منافع کے ساتھ چھوٹے اور تیزی سے مکمل ہونے والے منصوبوں پر منتقل ہوگئی۔ ایسے بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے جن کو مکمل ہونے میں زیادہ وقت لگتا ہے، چین اب چھوٹے منصوبوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے جو تیزی سے نتائج دے سکتے ہیں۔ اِسے ‘سمارٹ سی پیک’ کہا جاتا ہے۔
اکتوبر 2023 میں تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں صدر شی جن پنگ نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کے حصے کے طور پر “چھوٹے لیکن سمارٹ” منصوبوں پر بہت زور دیا۔ اِن سرمایہ کاریوں کا مقصد چھوٹے پیمانے پر ایک ہزار معاش کے پروگراموں پر توجہ مرکوز کرنا ہے، جس کا مقصد ہدفی اور باآسانی منتظم کئے جاسکنے والے منصوبوں کے ذریعے مقامی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔
اسلام آباد میں مقیم ایک سیاستدان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ چینی کاروباری رہنماؤں نے حکومت سے کچھ غیر رسمی ہدایات کا انکشاف کیا ہے کہ طویل مدتی منصوبوں میں سرمایہ کاری سے گریز کریں۔ انہیں بتایا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری جاری رکھیں لیکن وہ ایسے منصوبوں کا انتخاب کریں جو تقریباً تیار ہیں یا پہلے سے کام کر رہے اور آمدنی پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ سمت موجودہ منصوبوں کی سست رفتار اور کم منافع کے بعد تبدیل ہوئی ہے۔
چائنا ڈائیلاگ (جو 2024 میں ڈائیلاگ ارتھ بن گیا ہے) کی بانی اور کنگز کالج لندن کی وزٹنگ پروفیسر ازابیل ہلٹن کے مطابق، یہ رجحان چین کی بیرون ملک سرمایہ کاری کی حکمت عملی میں وسیع تر تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ ” 2017 کے آس پاس بڑے پیمانے پر بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) میں سرمایہ کاری عروج پر تھی کیونکہ بہت سے منصوبے متعدد وجوہات کی بناء پر مسائل کا شکار ہو گئے تھے۔” “پچھلے سال، بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کے 10 سال مکمل ہونے پر نسبتاً خاموشی تھی اور آج بیجنگ ایک مختلف ترقیاتی ماڈل، گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو، پر زور دے رہا ہے۔ چینی بینک اور حکومتی ادارے قرض دینے اور اپنی مالیاتی پالیسیوں میں بہت زیادہ محتاط ہو گئے ہیں اور اس بات کا زیادہ احساس ہے کہ کم شرح نمو اور قرضوں کی بڑھتی ہوئی سطح کی دنیا میں احتیاط اہم ہے تا کہ منافع کی شرح برقرار رکھی جا سکے۔”