خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس واقعے کے بعد جناح ہسپتال کی ایمرجنسی میں موجود ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ ہر مشتبہ لاش کا چیسٹ ایکسرے کروائیں گے اور گذشتہ چند دنوں میں ہسپتال کی ایمرجنسی میں مردہ حالت لائے گئے کئی افراد کے ایکسرے کروانے سے پتہ چلا کہ ان کے پھیپھڑوں میں پانی بھرا ہوا تھا۔
جناح ہسپتال کی ایمرجنسی میں موجود ایک ڈاکٹر نے خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ میں گذشتہ کئی سالوں سے جناح ہسپتال کی ایمرجنسی میں ڈیوٹی کر رہا ہوں اور میں نے مردہ حالت میں لائے گئے سیکڑوں افراد کو دیکھا ہے۔ کئی لوگ دوران علاج انتقال کر جاتے ہیں لیکن ان اموات کی وجوہات مختلف نوعیت کے حادثات، گولی لگنا یا دیگر حادثات جن میں جلنا اور زہر خوانی ہوتی ہے۔ لیکن گذشتہ دو ہفتوں سے حادثات میں نمایاں کمی ہوئی ہے لیکن ہر روز 15 سے 20 افراد یا تو مردہ لائے جارہے ہیں یا پھر آتے ہی مر جاتے ہیں۔ ان افراد میں 99 فیصد لوگ بیماری کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ ہمارے ماہرین کا خیال ہے کہ ان افراد کی وجہ موت جاننے کی انتہائی سخت ضرورت ہے۔
جناح ہسپتال کی انتظامیہ کے مطابق 31 مارچ 2020 سے لے کر 13 اپریل 2020 تک جناح ہسپتال کی ایمرجنسی میں 109 افراد مردہ حالت میں لائے گئے۔ اسی طرح 90 افراد ایسے تھے جو کہ قریب المرگ تھے اور وہ دوران علاج ایک گھنٹے کے اندر اندر جاں بحق ہوگئے۔ ایمرجنسی میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کے مطابق ایسے زیادہ تر افراد کی عمریں 45 سے لے کر 60 سال تھیں جب کہ چند افراد 35 سال تک کے بھی تھے اور چند ایک 80 سال سے زائد عمر کے بھی تھے۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ 60 سال سے کم عمر کے افراد خاص طور پر 45 سے لے کر 55 سال تک کی عمر کے افراد کا ہسپتال لانے کے چند گھنٹوں میں ہی مر جانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ کسی بیماری یا بیماریوں کے شدید حملے کا شکار تھے اور ان کا علاج نہیں ہو رہا تھا۔
ایمرجنسی میڈیسن کے ایک اور ڈاکٹر نے بتایا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ یہ سب لوگ کرونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے نمونیا سے مر رہے ہیں۔ ان میں کئی گردے فیل ہونے، جگر خراب ہونے اور دل کی بیماریوں سے بھی مر رہے ہوں گے لیکن ہمیں ان تمام افراد کی وجہ موت جاننے کی ضرورت ہے۔