عصر حاضر کے دو کہانی کار، عاصم بٹ اور امجد طفیل

05:02 PM, 15 Apr, 2020

حسنین جمیل
اردو ادب میں فکشن کی تاریخ بہت قدیم تو نہیں مگر توانا بہت ہے۔ عصر حاضر میں اردو فکشن میں بہت میعاری کام ہو رہا ہے۔ آج عصر حاضر کے دو اہم ترین فکشن لکھنے والوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ عاصم بٹ اور امجد طفیل۔

عاصم بٹ کا ناول بھید اور امجد طفیل کی افسانوں کی کتاب میرے افسانے، منظر عام پر آئی ہے۔ پہلے بھید پر بات کرتے ہیں۔ جیسے انتظار حسین صاحب کی تحریروں سے گنگا جمنا تہذیب کی خوشبو آتی تھی، اسی طرح عاصم بٹ کی تحریر سے لاہور کی تہذیب کی خوشبو آتی ہے۔ لاہور کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ بھگوان رام کے بیٹے راجہ لہو چند نے دریائے راوی کے کنارے اس شہر کی بنیاد رکھی۔ تب راوی کا نام اہراوتی تھا۔ راجہ لہو چند کا مندر آج بھی شاہی قلعہ لاہور میں موجود ہے۔ شہر لاہور جو اردو ادب کا دبستان کہلاتا ہے، عاصم بٹ اسی شہر کی گلیوں چوراہوں کی کہانیاں ہمیں لاہوری زبان میں سناتے ہیں۔

بھید ناول بھی اسی اندورن لاہور کی گلیوں کی کہانی ہے۔ کہانی قصور کے بس سٹاپ سے شروع ہوتی ہے اور اندرون شہر میں جاتی ہے۔ الیاس مندرہاں والا لاہور کے عاشق داراشکوہ اور پیر غالب شاہ کے تعلق کی روایت بیان کرتا ہے۔ آگے چل کر میاں میر بھی اس مِتھ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ کہانی فروش ایک دلچسپ کردار ہے، جس نے لاہور کی بسوں پر سفر کیا ہے، وہ ایسے کرداروں سے خوب واقف ہیں۔ دوران سفر قصہ گو کیسے اپنی زبان کی روانی سے مسافروں کو متوجہ کرتے ہیں۔ یہ سب موبائل فون اور 4 جی سے پہلے کی باتیں ہیں۔ وائی فائی کے اس عہد میں کہانی فروشوں کو کون سنتا ہے۔

بھید ناول محتلف کہانیوں کا بھید ہے، جس کو پڑھنے کے بعد آپ اس کے سحر میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ناول کا ہیرو ایک صحافی ہے، اس کے حالات بھی بتائے گئے۔ آج جو میڈیا انڈسٹری کے مالکان نے جو خود ساختہ بحران بںایا ہوا ہے، درحقیقت اس سے پہلے بھی صحافی کارکنوں کا مالکان استحصال ہی کرتے تھے۔ اس ناول میں سب کچھ کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں جکڑے اس سماج میں ہمیشہ محنت کش کا خون چوس کر ہی مالکان نے اپنے محلات کی بنیادیں رکھی ہیں۔

عاصم بٹ کہانی گر ہے اور مہارت سے اس ناول کی چار کہانیاں شروع کرتا ہے اور اختتام میں ان کو ایک کر دیتا ہے۔ ناول کا باب چاند بسری بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے، کیسے بنام مذہب سماج کو جکڑا گیا ہے؟ مسجد کی چھت کے چاروں اطراف سپیکر لگا کر خطاب کرتے ہیں اور اگر کوئی مُلا گردی کے خلاف آواز بلند کرے تو اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ مساجد نمازیوں سے بھری ہوئی ہیں مگر اخلاقی اقدار دیوالیہ پن کا شکار ہیں۔

اب امجد طفیل کے افسانوی مجموعے میرے افسانے کی بات کرتے ہیں۔ برزخ افسانہ بہت متاثر کن ہے، یہ ان لوگوں کی کہانی ہے جو سماج بدلنے کا پرچار کرتے پھر رہے ہیں مگر ان کے اپنے انسانی رویوں کے تضادات اس قدر ہیں کہ وہ ان کے سامنے رائی کے پہاڑ ثابت ہوتے ہیں۔ جو تیز ہوا کے جھونکوں سے ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ نظام بدلنے کی بات کرنا بہت آسان ہے مگر اپنی ذات کے نفی کرنا بہت مشکل۔ پاکستان کے بائیں بازو کا المیہ ہے کہ اگر آج وہ ناکام ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ بائیں بازو کے رہنما ذاتی اور فکری تضادات کا شکار ہیں۔ یہاں نہ جمہوریت خالص ہے اور نہ ہی آمریت۔

کھینچے ہے مجھے کفر، ایک لازوال کہانی ہے۔ فکشن لکھنے والے کے اندر کا ماہر نفسیات کھل کر سامنے آیا ہے۔ ایک عورت جو 1947 کے فسادات میں اپنے خاندان سے بچھڑ جاتی ہے، اسے ایک مسلمان اٹھا کر لے جاتا ہے۔ عورت مسلمان ہو جاتی ہے اور اس سے شادی کر لیتی ہے۔ ماں اور دادی بن جاتی ہے اچانک اسے خواب میں دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں نظر آنی شروع ہو جاتی ہیں۔ یہاں افسانہ نگار اپنے فن کے عروج پر ہے، انسان کچھ بھی کر لے اس کا ماضی اس کی نفسیات کا حصہ بن جاتا ہے۔

مسلسل شہر افسوس بھی ایک متاثر کن تحریر ہے۔ اس کا موضوع تاریخ اور سماج ہے۔ کربلا، غرناطه، کابل اور بعداد عالم اسلام کے زوال کا نوحہ ہیں۔ دنیا بھر میں ایک ارب ستاون کروڑ مسلمانوں کی تعداد ہے مگر وہ پھر بھی راندہ درگاہ کیوں ہیں۔ کون سی ایسی بات ہے جو ان کا زوال ختم ہونے کا نام ہی نہیں لینے دیتی۔ بے پناہ دولت کے باوجود ان کا دنیا میں کیا مقام ہے۔

بند دروازہ محبت کی کہانی ہے فلم انڈسٹری میں بسنے والوں کی کہانی ہے۔ ایک اداکارہ جو بہت خوب صورت تھی مگر فلموں میں زیادہ چل نہیں سکی۔ ایک ارب پتی سے شادی کے بعد سلور سکرین سے غائب ہو جاتی ہے۔ فلم کا ڈائریکٹر جو اس سے یک طرفہ محبت کرتا ہے، اب تک اپنے من مندر میں اس دیوی کی پوجا کرتا ہے، آخری درشن کے لیے اس کو تلاش کرتا ہے۔ آس کے گھر تک پہنچ جاتا ہے مگر دستک دینے کے بعد سنتا ہے، دروازہ بند ہی رہتا ہے۔ وہ وہاں سے لوٹ آتا ہے۔

دونوں باکمال افسانے ہیں اور انسانی نفسیات کو بہت مہارت سے بیان کیا ہے۔
مزیدخبریں