ریاست کی جانب سے مذہب اور تشدد پر اکسانے کے ماضی کے واقعات نے اس ملک کو جس آگ کی طرف جھونکا ہے اس سے نکالنا البتہ ہے تو ریاست کا کام مگر ریاست اس کام کو بھی اپنے مفادات کے تحت بوقت ضرورت استعمال کر رہی ہے۔ موجودہ دور میں پاکستان میں انسانیت کی قدر مذاہب اور فرقہ واریت کی نذر کچھ یوں ہوئی ہے کہ سعادت حسن منٹو کے افسانے کا ایک اقتباس یاد آتا ہے۔ منٹو نے 1947 میں ہندو مسلم فسادات سے متعلق کہا تھا کہ:
''یہ مت کہو کہ ایک لاکھ ہندو اور ایک لاکھ مسلمان مرے ہیں، یہ کہو کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں اور یہ اتنی بڑی ٹریجڈی نہیں کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں۔ ٹریجڈی اصل میں یہ ہے کہ مارنے اور مرنے والے کسی بھی کھاتے میں نہیں گئے۔ ایک لاکھ ہندو مار کر مسلمانوں نے یہ سمجھا ہوگا کہ ہندو مذہب مر گیا لیکن وہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ اسی طرح ایک لاکھ مسلمان قتل کر کے ہندوؤں نے بغلیں بجائی ہوں گی کہ اسلام ختم ہو گیا ہے مگر حقیقت آپ کے سامنے ہے۔ وہ لوگ بیوقوف ہیں جو سمجھتے ہیں کہ بندوقوں سے مذہب شکار کیے جا سکتے ہیں۔''
ٹی ایل پی پر پابندی لگانا آسان نہیں ہوگا کیونکہ یہ کوئی عام عسکریت پسند گروپ نہیں ہے۔ یہ ایک اندراج شدہ سیاسی جماعت ہے جس کی نمائندگی سندھ اسمبلی میں ہے۔ قانون کے مطابق، وفاقی حکومت کو پارٹی کے خلاف اپنے اعلامیے کو سپریم کورٹ کے پاس بھیجنا ہوگا۔ پارٹی اسی وقت تحلیل ہوگی جب سپریم کورٹ وفاقی حکومت کے اعلامیے کو برقرار رکھے گی۔
اس حوالے سے جسٹس (ر) شائق عثمانی نے گذشتہ روز اس معاملے پر اپنی رائے دیتے ہوئے واضح کیا کہ حکومت کے پابندی لگانے کی کوئی خاص حیثیت تب تک نہیں ہے جب تک سپریم کورٹ آف پاکستان اس معاملے میں حکومت کی تائید نہ کر دے اور شائق عثمانی کا کہنا تھا کہ میرا ذاتی خیال ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم نہیں قرار دے گی کیونکہ احتجاج کی بنا پر کسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرنا آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
یہی مؤقف مصدق ملک جو مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما ہیں نے اپنایا اور تحریک لبیک پاکستان پر پابندی کی مخالفت کی۔ اب تک تحریک لبیک پاکستان پر پابندی کی مخالفت میں مسلم لیگ ن، جمعیت علما اسلام، جمعیت علما پاکستان نورانی گروپ اور جماعت اسلامی سامنے آ چکے ہیں اور یہ ایک غیر معمولی بات اس لئے بھی ہے کہ جس طرح حکومت کا ایک خاص جماعت پر بغیر کسی ریاست مخالف ایجنڈے کی تکمیل کے اس کو کالعدم قرار دینا ایک سیاسی انتقام یا بیوقوفی نظر آتا ہے اسی طرح ملک کی اہم اپوزیشن جماعتوں کا اس پر پابندی کی مخالفت بھی پیچدہ اور سیاسی معاملہ ہے۔
کسی بھی سیاسی جماعت یا مذہبی تنظیم کو بغیر ثبوت جو کہ ریاست مخالف ایجنڈے کی تکمیل پر ہو کالعدم قرار دینا آئین کے بنیادی اصولوں کی سراسر خلاف ورزی ہے کیونکہ احتجاج میں سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے پر تحریک لبیک پاکستان تو جتنی ذمہ دار ہے اس سے کئی گنا زیادہ حکومت اور وزارت داخلہ کی نااہلی ثابت ہوتی ہے کہ کسی جتھے کو جب آپ قانون کی پاسداری پر آمادہ نہ کرسکیں تو اختیارات کا استعمال کرتے اسے کالعدم قرار دینا انتہائی بیوقوفانہ فعل ہے۔
تحریک لبیک پاکستان کے موجودہ امیر سعد رضوی پر املاک کو نقصان پہنچانے کا اور پولیس افسران کی شہادت کا پرچہ براہ راست اس معاملے کی جانب اشارہ کرتا ہے جس میں تحریک انصاف کے احتجاج میں پی ٹی وی حملہ کیس اور پارلیمنٹ حملہ کیس میں موجودہ وزیر اعظم عمران خان اور موجودہ صدر عارف علوی کی نامزدگی تھی اور بعدازاں عدالت کی جانب سے ان کی بریت کا فیصلہ بطور ریفرنس اس کیس میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
دوسری اہم بات الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہے جو کہ آزاد خود مختار ادارہ ہے اور تحریک لبیک بطور سیاسی جماعت الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے اور کرین کے انتخابی نشان پر سندھ اسمبلی میں ان کے تین رکن پارلیمنٹ ہیں۔ الیکشن کمیشن حکومتی احکامات کا پابند نہیں ہے۔
اسی حوالے سے سابق الیکشن کمشنر پنجاب شریف اللہ سے دریافت کرنے پر ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن تب تک کسی سے اس کا انتخابی نشان نہیں لے گا اور نہ ہی کسی جماعت کی رجسٹریشن ختم کرے گا جب تک الیکشن کمیشن آف پاکستان خود اپنے بلائے اجلاس میں تمام صورتحال کا جائزہ نہ لے۔ البتہ اجلاس طلب بھی تب کیا جائے گا جب حکومت تحریری طور پر ہم سے تحریک لبیک کی رجسٹریشن کو ختم کرنے کی درخواست کرے گی وگرنہ حکومت کس کو کالعدم کرتی ہے یا پابندی لگاتی ہے الیکشن کمیشن کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
سعد رضوی کی گرفتاری کے بعد سے پیدا ہونے والے حالات میں غیر جانبدار اور حقیقت شناس افراد نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی اس معاملے کی طرف اشارہ کیا کہ حکومت کی جانب سے ایسا اقدام بغیر کسی حکمت عملی کے اصل میں نہ صرف ان کی نااہلی بلکہ عوام کو جان بوجھ کر مصیبت میں ڈالنے والی حرکت تھی۔ ایک دفعہ خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اقتدار میں رہ چکے ہیں اور کئی دفعہ رہ چکے ہیں۔ سب سے زیادہ کم علم اقتدار میں بیٹھے شخص کو ہوتا ہے (اس کا اشارہ نواز شریف کا سپریم کورٹ سے نااہلی کی طرف تھا)۔
ویسے خواجہ آصف سے سیاسی اختلاف بالائے طاق رکھ کر سوچا جائے تو اس کی اس تقریر کا لفظ بہ لفظ حقیقت پر مبنی ہے۔ اس کی مثال موجودہ حکومت کی سعد خادم رضوی کی گرفتاری ہے۔ سب سے پہلے تو وقت سے پہلے اور غیر ضروری گرفتاری تھی جس کے نتائج سے تو عام آدمی اچھی طرح واقف تھا۔ اگر واقف نہیں تھے تو وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب۔ جب حکومت کا اس جماعت سے معاہدہ ہوا تھا کہ اس مسئلے کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا تو معاہدے کی مقررہ تاریخ سے پہلے اس طرح کی کارروائی وہ بھی بغیر حفاظتی اقدامات کے نااہلی کی اعلیٰ مثال ہے۔ جب کہ فیض آباد دھرنے میں حکومت کی طرف سے دکھائی جانے والی نااہلی سامنے موجود ہے۔