معاشی، سیاسی، سکیورٹی اور بیانیے کے حوالے سے غیر یقینی صورت حال پیدا ہو جانے کے باعث پاکستان پہلے ہی سے ریاستی اور سماجی تباہی کی لپیٹ میں تھا۔ غیر یقینی صورت حال سے مراد بنیادی حقائق یا سچائیوں کے حوالے سے بھی مکمل الجھن کی کیفیت کا پیدا ہو جانا ہے جس کا اظہار مختلف ریاستی اداروں، سیاست دانوں، ججوں، فوجی سربراہوں، انٹیلی جنس حکام وغیرہ سے متعلق کھلے عام خطرناک حد تک غیر ذمہ دارانہ اور غیر ثابت شدہ الزامات کی صورت میں ہوتا ہے۔
آئینی اور عدالتی میدان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورت حال نے اس چومکھی دیوہیکل انتشار میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ آئینی انتشار پی ڈی ایم حکومت، ریاستی عہدیداروں اور الیکشن کمیشن جیسے اداروں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، مثال کے طور پر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 روز کے اندر الیکشن نہ کروا کر جب وہ واضح آئینی احکامات کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔ یہ محض بحران ہی نہیں بلکہ آئینی خلفشار ہے کیونکہ جو ملک وقت پر انتخابات بھی نہیں کروا سکتا وہ جمہوریت اور آئین کی پاسداری کی روح کا انکار کر دیتا ہے۔
تاہم غیر یقینی صورت حال کی ان مختلف صورتوں میں سب سے خطرناک عدالتی انتشار ہے جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ان سے اختلاف کرنے والے ججوں کے مابین پہلے سرد جنگ کی صورت میں اور اب زبانی خانہ جنگی کی صورت میں سامنے آ چکا ہے۔ یہ محض عدالتی بحران نہیں ہے بلکہ عدالتی انتشار ہے جب سپریم کورٹ کے تقریباً نصف ججز اپنے عدالتی فیصلوں کے ذریعے چیف جسٹس پر کھلے بندوں تنقید کرتے ہیں یا جب چیف جسٹس فل بنچ تشکیل دینے سے اس وجہ سے ہچکچا رہے ہیں کہ وہ عدالتی اختلاف رائے سے خوف زدہ ہیں اور نتیجے کے طور پر موجودہ حکومت سپریم کورٹ میں جاری تقسیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کرنے کی کھلی مخالفت کرتی ہے۔
ہم یہاں سے کس طرف جائیں گے؟
تاریخ بھولنے کی بیماری: کارل مارکس نے درست کہا تھا، 'تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، پہلی مرتبہ ایک المیے کے طور پر، دوسری مرتبہ طنز کے طور پر'۔ 2023 کی عدالتی افراتفری چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے دور میں پیدا ہونے والی 1997 کی عدالتی افراتفری سے مماثلت رکھتی ہے لیکن جس انداز سے 2023 کے عدالتی واقعات رونما ہو رہے ہیں تو ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2023 میں تاریخ اپنے آپ کو بیک وقت المیے اور طنز کی صورت میں دہرا رہی ہے۔ موجودہ عوامی گفتگو نے 1997 کے ساتھ مماثلت کو اجاگر کیا ہے: ایک سپریم کورٹ جو چیف جسٹس کی حمایت کرنے والے اور ان سے اختلاف کرنے والوں ججوں میں تقسیم پر مشتمل ہے۔ ان ججوں کے مابین بنیادی اختلاف مقدمات کی سماعت کے لیے اپنی من مانی کی بنیاد پر بنچوں کی تشکیل کے لیے چیف جسٹس کے اختیارات کا استعمال اور سیاسی طور پر حساس اور آئینی طور پر اہم مقدمات کو ججوں کے ایک مخصوص بنچ کے حوالے کرنے سے متعلق ہے؛ اختلافی ججوں کی جانب سے فل کورٹ اجلاس کا مطالبہ؛ پارلیمنٹ میں ججوں کے خلاف جارحانہ تقاریر؛ پارلیمنٹ کی جانب سے قانون میں ترمیم جس کے نتیجے میں اپیل کا حق ملنے کے بعد سپریم کورٹ کا لارجر بنچ اس اپیل کی سماعت کرے گا، خاص طور پر ایسے مقدموں میں جو سیاسی طور پر حساس معاملات سے متعلق ہوں؛ سپریم کورٹ کے مختلف حریف بنچوں کی جانب سے ایک دوسرے کی کارروائی کو کالعدم قرار دینے کے احکامات؛ اور سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف مس کنڈکٹ پر ریفرنسز بھیجنے کی بازگشت۔
لہٰذا 2023 کے عدالتی انتشار میں ہمیں 1997 کی جھلکیاں نظر آ رہی ہیں تاہم یہ دونوں عدالتی انتشار کئی حوالوں سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ سب سے پہلے 1997 میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی مخالفت میں ایک انتہائی طاقتور سیاسی انتظامیہ اور ایک مضبوط پارلیمنٹ موجود تھی جس کی حکومت قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت رکھتی تھی جبکہ اپوزیشن نہایت کمزور تھی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی غیر فیصلہ کن صورت حال سے دوچار تھی۔ 2023 میں ملک میں ایک کمزور مخلوط حکومت قائم ہے، ایک قابل اعتراض اور نامکمل پارلیمنٹ ہے، ایک طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے اور حکومت کے خلاف عوامی طور پر متحرک اور مضبوط اپوزیشن موجود ہے۔ مختصراً یہ کہ موجودہ حکومت ججوں کے درمیان تقسیم کا فائدہ اٹھا کر، سپریم کورٹ پر حملہ کر کے اور اس کے نتیجے میں چیف جسٹس کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر کے اپنا سوچا ہوا حل ان پر مسلط کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ 1997 کے برعکس پاکستان اس وقت انتشار کی اوپر بیان کی گئی بیک وقت رونما ہونے والی چار صورتوں کی زد میں ہے۔ 1997 میں موجود نسبتاً استحکام کے برعکس 2023 میں ملک کو انتشار سے بچانے کا وقت ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے 2023 کے عدالتی انتشار کا نتیجہ 1997 جیسا نہیں نکلے گا، بلکہ شاید اس سے بہت زیادہ تباہ کن نتیجہ سامنے آئے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جج صاحب تاریخی حقائق بھول جانے کی بیماری میں مبتلا ہیں جو یہ سوچتے نظر آتے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح 1997 جیسے عدالتی انتشار کو دہرانے سے روکنے میں کامیاب ہو جائیں گے جبکہ 2023 میں وہ اسی طرح کے انتشار پر مبنی اقدامات اٹھا رہے ہیں جیسے عدلیہ نے 1997 میں اٹھائے تھے۔
تباہ کن نتائج: اگلے چند مہینوں میں یہ عدالتی انتشار اپنے عروج کو پہنچ سکتا ہے۔ اگر سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا جو چیف جسٹس اور دو سینیئر ججوں پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے بنچوں کی تشکیل کا اصول طے کرتا ہے اور آرٹیکل 184(3) کے تحت جاری ہونے والے احکامات کے خلاف لارجر بنچ کے سامنے اپیل کا حق فراہم کرتا ہے یا عدالتی طور پر اسے معطل کر دیا جاتا ہے تو موجودہ اختلاف رائے رکھنے والے جج بنچوں میں نہ بیٹھنے پر غور کر سکتے ہیں یا حریف ججوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف مزید احکامات جاری کیے جا سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ملک میں زبانی طور پر دو سپریم کورٹس وجود میں آ جائیں گی۔
اس کے علاوہ عدالتی مس کنڈکٹ کی شکایات یا آڈیو لیکس کی تلوار کو استعمال کرتے ہوئے بعض ججوں کو ہراساں کیا جا سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر دو طرح کی تباہ کن صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ ججوں کا ایک گروپ دوسرے پر غالب آ جائے گا، اس لیے نہیں کہ وہ آئینی لحاظ سے لازمی طور پر درست ہیں بلکہ اس وجہ سے کہ انہوں نے اپنے ساتھی ججوں پر غالب آنے کے لیے ایک بہتر حکمت عملی اختیار کی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ججز سٹریٹجک گیم کھیلنے تک محدود ہو کر رہ جائیں گے۔ یا 1997 کے برعکس چیف جسٹس اور اختلاف رکھنے والے ججوں کے درمیان مکمل ڈیڈلاک ہو جائے گا جس کے نتیجے میں شہری بدامنی کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے لیکن چونکہ حکومت اور پارلیمنٹ دونوں ہی بہت کمزور ہیں اس لیے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکے گا۔ اس تعطل کو ختم کرنے کے لیے ڈیپ سٹیٹ کی طرف سے براہ راست یا بالواسطہ مداخلت کی راہ ہموار ہو جائے گی (جیسا کہ 2009 میں ججوں کی بحالی کے لیے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے مداخلت کی تھی) لیکن پاکستان میں آئینی جمہوریت اور عدالتی آزادی پر اس کے غیر متوقع اثرات مرتب ہوں گے۔
کیا موجودہ عدالتی انتشار کو اس وقت روکا جا سکتا ہے؟ بات چیف جسٹس عمر عطاء بندیال پر ختم ہوتی ہے کیونکہ سپریم کورٹ کو موجودہ انتشار سے بچانے کے لئے حتمی طاقت بھی ان کے پاس ہے اور ذمہ داری بھی انہی کی ہے۔ حل آسان سا ہے: بنچوں کی تشکیل اور بنچوں کے سامنے سیاسی اور اہم نوعیت کے آئینی مقدمات رکھنے سے جڑے اہم تنازعات پر بحث کرنے اور ان کو حل کرنے کے لیے ایک فل کورٹ انتظامی اجلاس بلا لیا جائے۔ مزید براں خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے تنازعات سے جنم لینے والے تمام مقدمات کو فل کورٹ کے سامنے رکھ دیا جائے۔ کیا ایسا ہو پائے گا؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ حالیہ عدالتی واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اتفاق رائے پر مبنی اس طرح کا حل نکلنے کے امکان بہت محدود ہیں۔
جیسا کہ ایک فلسفی والٹر بنجمن نے کہا تھا، 'امید ان لوگوں کو دی جاتی ہے جو ناامید ہوتے ہیں'۔
فیصل صدیقی کا یہ کالم انگریزی روزنامے 'ڈان' میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔